• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اپنے سابقین کے مقابلے میں ایماندار ہے، خود کرپشن نہیں کرتا، بہت محنتی ہے، ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے، اسے عام لوگوں کا دکھ ہے مگر عام لوگ ہی اُس کے عہد میں دکھی ہیں، عام لوگوں کے دکھ کم نہیں ہوئے، ایسا کیوں ہوا؟ ملک کا وزیراعظم تو بہت کام کرتا ہے، زیادہ کام اور زیادہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے ان کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا ہے، عوام کا غصہ کیوں بڑھ رہا ہے، سوا سال میں وہ کچھ کیوں نظر نہیں آ رہا، جس کا وعدہ تھا۔ اصل مرض کیا ہے، کیوں ہے اور کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟ 

مرض یہ ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے، کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے، کرنسی ڈی ویلیو ہوئی ہے، رشوت کے ریٹس ڈبل ہو گئے ہیں، چوری رکی نہیں،اقربا پروری کا کھیل جاری ہے، ایف بی آر نے تنگ کر رکھا ہے۔ بنیادی شعبے یعنی تعلیم، صحت اور روزگار کمزور ہوئے ہیں۔

آپ کو یاد ہو گا کہ جب عمران خان الیکشن جیت گئے تو تین طرح کے لوگ بہت پریشان تھے بیورو کریسی، خاص طور پر کرپٹ بیورو کریٹس، کرپٹ مافیا اور کئی ملکوں کے سربراہان پریشان تھے کہ نیا پاکستانی سربراہ پتا نہیں کیا کرنے والا ہے؟

سہمے ہوئے بیورو کریٹ کچھ بھی کرنے کو تیار نہ تھے پھر ان کے کچھ بھائیوں نے وزیراعظم کی ان سے ملاقاتیں کروائیں، ایک سویلین ادارے کی جانب سے مرضی کی رپورٹیں تیار کروائی گئیں اور پھر وزیراعظم اور حکومت کی نظام سے دوستی کروا دی گئی بس پھر سابقہ حکومت کے چہیتوں کو عمدہ پوسٹنگیں ملنا شروع ہو گئیں، دیانتدار منہ تکتے رہ گئے، رشوت کے ریٹ ڈبل ہو گئے، سب اچھا کی رپورٹیں پہنچانے کا بندوبست بھی کر لیا گیا۔

دوسرا پریشان طبقہ مافیاز تھے، مافیاز نے وزیراعظم کی حکومت میں شامل وزیروں مشیروں کو ڈھونڈا، ان سے دوستیاں بنائیں، انہیں رام کیا، بس پھر مافیا کا دھندہ بھی شروع ہو گیا، اقربا پروری بھی ہونے لگی، دوستوں کو ٹھیکے اور پوزیشنیں بھی ملنا شروع ہو گئیں، برانڈڈ سوٹوں والے کرپٹ افراد وزیراعظم کے دوستوں کے ذریعے وزیراعظم آفس تک پہنچ گئے، ابھی تو خدا کا شکر ہے کہ ایک خاص طبقے کو پانچویں فلور تک رسائی نہیں ہے اور اس رسائی کو مشکل بنانے میں وزیراعظم کے ایک محب وطن ہمدرد کا کردار ہے ورنہ چوتھے فلور کے کام پانچویں پر پہنچ جاتے۔

تیسری پریشانی غیر ملکی سربراہوں کو تھی، یہ جادو توڑنے کے لئے سابق وزیر خزانہ نے کام دکھایا، وہ عمران خان کو قرضے کے حصول کے لئے استعمال کرنے لگے، کئی ملکوں سے امداد مانگی گئی بلکہ اس وزیر خزانہ نے تو آئی ایم ایف کے ساتھ وزیراعظم کو بٹھا دیا۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے معاشی عالم چنے نے ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا، اسی کی وجہ سے آج تک معیشت نہیں سنبھل رہی۔

وزیراعظم عمران خان کو وزرا مشیروں یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کسی قومی ادارے نے کر کے نہیں دیا بلکہ یہ انتخاب انہوں نے خود کیا ہے، دو اہم صوبوں میں چُن کے دو نکمے افراد لگا دیئے گئے، ایک صوبہ ایک افسر چلا رہا ہے اور بڑے صوبے کو وہی کرپٹ سسٹم جو ایک صاحبزادے نے شروع کیا تھا، اسی کے پرزے نئے نظام میں فٹ ہو گئے ہیں، نوکریوں کا جھانسہ دینے والا وزیر خزانہ عمران خان خود لائے تھے، پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ بھی اسی کا کرشمہ تھا۔

پاکستان میں پچھلے بیس سالوں سے ایک پراپرٹی کا بزنس چلتا تھا، اب وہ بھی ٹھپ ہو کے رہ گیا ہے، اس سے وابستہ چالیس صنعتیں بند ہو گئی ہیں اگر کوئی گھر بناتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے پیسے کہاں سے آئے۔

ایف بی آر کے نئے چیئرمین ہمارے معاشرتی نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت جب گھر بناتی ہے تو وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ادھار پیسے لے کر گھر بناتی ہے کیونکہ ہر کسی کے پاس پورے پیسے نہیں ہوتے۔

اب اُدھار دینے والوں کو بھی حساب دینا پڑ رہا ہے، انہوں نے ایک طرف تو اپنے رشتہ دار کی مدد کی اور دوسری طرف ایف بی آر کو اپنے پیچھے لگا لیا۔ بینکوں میں چند لاکھ جمع کروانے یا نکلوانے جائیں تو آپ کو دن میں تارے نظر آئیں گے، اسی لئے بینکوں کا نظام بربادی کی طرف جا رہا ہے، لوگوں نے بینکوں کا استعمال چھوڑ دیا ہے، پیسہ گھروں میں رکھ لیا ہے، نہ کاروبار میں اور نہ ہی بینکوں میں۔

آج کل بینکوں میں ٹرانزیکشن بہت کم ہو گئی ہے۔ اس سے سرکاری آمدن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ آپ ٹیکس ضرور لگائیں، لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں مگر یہ کام آہستہ آہستہ کریں، لوگوں کو ٹیکس کی افادیت سے آگاہ کریں، ایک ایک کر کے ٹیکس لگائیں، تمام ٹیکسوں کا بوجھ ایک ہی وقت نہ ڈالیں۔

تاجر طبقہ ایک طرف لوگوں سے جی ایس ٹی وصول کرتا ہے تو دوسری طرف حکومت کو جی ایس ٹی دیتا نہیں۔ اس پر بھی غور کریں۔ گورننس کا عالم یہ ہے کہ ڈکیتیوں، چوریوں اور ڈاکوں میں اضافہ ہو گیا ہے، پولیس مقدمات درج نہیں کر رہی۔

بے شمار مثالیں ہیں مگر ایک مثال حاضر ہے۔ کچا کھوہ میں واقع ایک ٹیکسٹائل مل میں تین کروڑ کی ڈکیتی ہوئی، مل مالک پرچہ درج کروانے میں ناکام ہے۔ حالیہ کئی اور واقعات آپ کے سامنے ہیں۔

محض باتیں نہیں، عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم کو اپنے گرد وہ چار افراد تلاش کرنا چاہئیں جو ان سے سوا سال سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں، باقی جگہوں پر تبدیلیاں کرنا چاہئیں۔ فی الحال ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کے اشعار؎

کیسے عجیب دکھ تھے، دل میں چھپا کے لائے

گرد سفر تھی رہ میں، بس ہم اٹھا کے لائے

پڑھتا نہیں ہے کوئی پھر بھی لکھا ہے ہم نے

سنتا نہیں ہے کوئی لیکن سنا کے آئے

تازہ ترین