• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عہدِ حاضر کا معروف پاکستانی اُردو ناول، جس پر فلم بھی بنائی گئی

پاکستان کے موجودہ ادبی و ثقافتی منظر نامے پر شہرت کے اعتبار سے ایسے لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہے، جنہوں نے قلمی سفر کی ابتداکسی نہ کسی ڈائجسٹ سے کی ،جبکہ ان کے قارئین کی تعداد محدود تھی، پھر زمانہ بدلا، پاکستانی میڈیا میں انقلاب آیا، نت نئے چینل کھلے، ان میں ایک بڑی تعداد ایسے چینلوں کی تھی، جنہوں نے تفریحی صنعت کو فروغ دیا، ڈراموں کے چینل شروع کیے، جن سے ڈائجسٹ لکھاریوں کی قسمت بدل گئی۔ ڈرامے کے رجحان میں تیزی اور فلم کی بحالی نے ڈائجسٹ میں لکھنے والوں کو اپنے اندر ضم کرلیا۔ 

اب یہ الگ ادبی بحث ہے کہ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی کہانیاں اور ناول ادب میں شمار ہوتے ہیں بھی کہ نہیں ؟ دنیا بھر میں اس انداز کے ڈائجسٹ مواد کو پاپولر لٹر یچر کہا گیا ہے، یعنی ایسا ادب، جس کی سطح ادبی لحاظ سے بہت معیاری تو نہ ہو لیکن اس کو بڑے پیمانے پر پڑھا جائے، تفریحی صنعت کے کرتا دھرتا لوگوں نے پاکستان کے روایتی اور جدید ادب پر ذرا کم انحصار کیا، البتہ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی کہانیوں پر ہاتھ صاف کرنے میں کسی جھجک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا، کیونکہ یہ کہانیاں لکھنے والی عورتیں ان کو پڑھنے والی بھی عورتیں ہی تھیں، ٹیلی وژن والوں نے انہی کہانیوں کو ٹیلی وژن ڈرامے کی شکل دے دی اور یوں سر جھکا کر ان کہانیوں کو پڑھنے والی عورت سر اٹھا کر ٹیلی وژن پر اپنے خوابوں اور محرومیوں کا عکس دیکھنے لگیں۔

عمیرہ احمد، فرحت اشتیاق، نمرہ احمد اور ایسے کئی نام بطور مثال موجود ہیں، جنہوں نے ناول نگاری کو موضوع بنا کر ڈرامے کے راستے سے شہرت حاصل کی، لیکن ابھی تک ان موجودہ زمانے کی ناول نگاروں میں سے صرف ایک ناول نگار فرحت اشتیاق ہیں، جن کے ناول’’بن روئے آنسو‘‘ پر پاکستان میں ’’بن روئے‘‘کے نام سے فلم بنی۔

’’فرحت اشتیاق‘‘ نے اب تک تقریباً 16 ناول لکھے ہیں، جن میں سے نصف پر ڈرامے بن چکے ہیں، ان ہی میں سے ایک ڈراما’’ہمسفر‘‘ بہت مشہور ہوا، جس کی وجہ سے اب ان کا شمار معروف ناول نگاروں اور ڈراما نگاروں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کا ٹائٹل گیت’’وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی‘‘ پاکستان کے معروف شاعر نصیر ترابی کی غزل ہے، فر حت اشتیاق اب ڈائجسٹ کے علاوہ، ڈرامے اور فلموں میں بھی متحرک ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم’’پرواز ہے جنوں‘‘ کی کہانی بھی لکھی تھی، لیکن ان کے اب تک لکھے ہوئے ناولوں میں سے فی الحال ایک ناول پر ہی فلم بنی ہے۔ یہ ناول ’’بن روئے آنسو‘‘ ہے،جس کی پہلی مرتبہ کتابی صورت میں اشاعت 2010 میں ہوئی تھی۔

یہ ایک رومانوی کہانی ہے، جس میں تین مرکزی کردار ہیں، ایک لڑکا اور دو لڑکیاں، ان تینوں کے اردگرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ ناول کی کہانی میں ہیروکا نام ’’ارتضیٰ‘‘ ہے، جس سے اس کے چچاکی بیٹی اور بچپن کی دوست’’ صبا‘‘ شدید محبت کرتی ہے ،وہ یہ بھی تصور کرتی ہے کہ وہ بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہے، جبکہ ہیرو کی توجہ صبا کی بجائے’’ ثمن‘‘ پر ہوتی ہے، جو صبا کی بہن اور چچا کی لے پالک بیٹی ہے۔

کہانی کا ہیرو اپنے کاروباری سلسلے میں امریکا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے چچا کی لے پالک بیٹی کو دل دے بیٹھتا ہے، اب ان تینوں کے درمیان کہانی مثلث کی شکل میں آگے بڑھتی ہے۔ کہانی میں محبت، نفرت، رقابت اور دیگر کیفیات کی عکاسی بھی پڑھنے کو ملتی ہے، لیکن یہ ناول ایک ڈائجسٹ کی روایتی زبان میں ہی لکھا گیا، جس میں ادبی چاشنی اور زبان و بیان کا کچھ زیادہ خیال نہیں رکھا گیا۔ اس کے باوجود بھی یہ ناول مشہور ہوااور خواتین کے ایک بڑے طبقے تک پہنچا۔

اس ناول کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نجی چینل نے 2015 میں اس ناول پر فلم بنائی ، بعد میں اسی کو بنیاد بنا کر ڈراما بھی بنایا۔ پاکستان میں محدود لیکن ایسے تجربات ہوئے ہیں، جب مختلف ناولوں اور افسانوں پر فلمیں بنائی گئی۔ ہلکا پھلکا ادب اور رومانوی کہانیاں پڑھنے والوں کے لیے یہ ناول اور فلم دونوں ہی انتخاب بن سکتی ہیں، لیکن ادبی معیار کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

تازہ ترین