• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاروق سرور

اکثر میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ادب میں ڈائری کی اہمیت کیوں اتنی زیادہ ہے اور یہ اتنی زیادہ صورتوں میں کیوں ہے؟مثلاً روسی زبان کے ادیب دوستوفسکی کی ایک ادیب کی ڈائری،نوبل انعام یافتہ ادیب الیگزنڈر سولژے نٹسن کی کتاب ایک پاگل کی ڈائری،دنیا بھر کے مختلف اہل قلم کی ڈائریاں، جیسے ڈریکیولا کی ڈائری، ایک مجرم کی ڈائری،ایک چور کی ڈائری،ایک چھوٹے لڑکے کی ڈائری اور اس طرح کی دیگر بہت سی ڈائریاں۔

پشتو زبان کے ادیب ،یوسف گل وردگ جب زندہ تھے،تو وہ مجھے سختی سے تاکید کرتے تھے کہ’’ اگر اچھا ادیب بننا ہے،اپنے پڑھنے والوں کو اچھے تاثرات اور احساسات سے متاثر کرنا ہے،اپنی تحریروں کو پرکشش بنانا ہے،ان میں سچائی کو خوبصورت الفاظ کے ساتھ سامنے لانا ہے،اپنے قلم کو طاقتور بنانا ہے،تو تمہارے پاس ایک عدد ڈائری ضرور ہونی چاہیے،جس میں تم رات کو بیٹھ کر اپنے دل کا حال لکھا کرو،اپنے روزانہ کے واقعات کا ذکر اپنے دلی تبصرے احساسات کے ساتھ کیا کرو،اس دوران اگر رونے کو جی چاہتا ہے تو خوب رویا بھی کرو اور دل کی خوب خوب بھڑاس نکالا کرو‘‘۔

دل کی بھڑاس نکالنے کے سلسلے میں،میرے ساتھ، ایک مشکل ہمیشہ سے رہی وہ یہ کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں لکھوں اور خوب لکھوں بلکہ زیادہ تعداد میں لکھوں،لیکن میں لکھ نہیں پاتا اور دل ہے کہ بیچارہ بھڑاس سے بھرپور رہ جاتا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر وقت ناول کا لکھنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے،کیونکہ اس کے لیے ایک زبردست اور اچھوتا پلاٹ ہونا چاہیے بلکہ ضرور چاہیے،جو مجھے آسانی سے نہیں ملتا، لاکھ سوچنے اور کوشش کے باوجود بھی۔افسانہ لکھوں، لیکن اس کے لیے کہانی یا ایک زبردست کلائمیکس مشکل سے ملتا ہے،ڈرامہ لکھوں،لیکن اس کے لئے ایک بہت شاندار تھیم اور ایک دوسرے سے مختلف کردار کہاں سے ملیں گے۔یہ ہیں باقی تحریروں کے سلسلے میں مسئلے اورمسائل۔

اب سب سے آسان راستہ جو ہے، وہ ہے ڈائری کا۔لیکن مجھ میں اس کی عادت نہیں، حالانکہ اس کی عادت خود میں ڈالنے کے لئے میں نے بہت ساری ڈائریاں خریدیں، رجسٹر خریدے،لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا،میری ڈائری لکھنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی،وہ تمام ڈائریاں اور رجسٹر میرا منہ چڑا رہے ہیں اور اگر لکھتا بھی ہوں، تو کبھی کبھار، ہر وقت نہیں، جبکہ مجھے تو اکثر لکھنا چاہیے بلکہ باقاعدگی کے ساتھ لکھنا چاہیے اور ان رجسٹروں ، ڈائریوں کو خود پر ہنسنے سے روکنا چاہیے۔ پر کیا کروں،بے بس ہوں،دل کی بھڑاس اور لکھنے کے معاملے میں لاشعور میں میری عجیب عجیب سی پیچیدگیاں ہیںجو میرے قلم کا راستہ روکے رکھتی ہیں،پتہ نہیں کیسی بلائیں ہیں یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

قدوس درانی کا شمار پشتو زبان کے اعلیٰ پائے کے طنزومزاح لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے انہیں بہت دنوں تک خاموش،خاموش سا پایا،شاید یہ بات یوسف گل مرحوم نے بھی بھانپی۔ یوسف گل مرحوم ایک ماہر نفسیات بھی تھے۔ انہوں نے قدوس صاحب سے پوچھا کہ تمہاری یہ خاموشی کیسی ۔قدوس سے جواب نہیں بن پایا۔ یوسف گل بولے کہ میں تمہیں بتاتا ہوں،یہ سب تمہارا نہ لکھنا ہے،تمہارے ذہن میں تمہارے خیالات گڈومڈ ہو رہے ہیں اور تمہیں ستا رہے ہیں ان کو نکالنے کا بہترین راستہ ہے ۔رات کو ڈائری لکھنا۔

اگر دیکھا جائے تو ہمارے عالمی ادب کی دنیا کے اہل قلم کی بہت سی تحریریں ڈائری کے قریب قریب ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ڈائریاں کچھ مختلف صورت میں لکھیں۔ مثلآ مشہور انگریزی ادیب ڈی ایچ لارنس نے اپنی زندگی کا سب سے مشہور ناول sons and lovers کے نام سے لکھا،جو ان کی اپنی زندگی اور مختلف محبتوں سے متعلق ہے۔ چارلس ڈکنس۔Charles Dickens) )انگریزی زبان کے ایک اور مشہور اہل قلم ہیں۔ ان کا بچپن مشکلات اور برے حالات میں گزرا۔ والد ان کا مقروض تھا اور انہیں لوگوں کے بہت سے قرض ادا نہ کرنے پر جیل کی سزا ہوئی تھی، ان کے والدین کے بہت سارے بچے تھے، وہ ان تمام بچوں میں سب سے بڑا تھا اور ان سب کو پالنے کی ذمہ داری اور کفالت کا بوجھ بھی ان کے ناتواں اور کندھوں پر تھا۔اسی حوالے سے انہوں نے اپنی زندگی سے ملتے جلتے مظلوم بچوں پر بہت سارے ناول لکھے اور ان کرداروں کو بلاؤں کی صورت میں سامنے لائے،جو ان پر ظلم کرتے تھے ۔ ان تمام تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کی ان کی ڈائریاں تھیں۔ روس کے اہل قلم ٹالسٹائی اور میکسم گورکی نے اپنے بچپن،جوانی اور تعلیم سے متعلق خوب خوب لکھا،اپنی زندگی کے رنگین واقعات کو سامنے لائے۔ ہم ان تمام کو ان کی اس وقت کی ڈائریاں کہہ سکتے ہیں۔

کسی بھی شاعر، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار کے لیے ڈائری لکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے اپنی تحریر کے لئے بہت سارا مواد بھی مل جاتا ہے، وہ اپنے اندر کے ہر طرح کے احساسات اور واقعات کو سامنے لے آتا ہے اور اپنے لاشعور کی دنیا کو پاجاتا ہے۔اس طرح سے، اسے نظموں، افسانوں اور ناولوں کی صورت میں بہت کچھ مل بھی جاتا ہے۔

ہماراخیال ہے کہ ڈائری لکھنے سےبہت سارے آئیڈیاز آتے ہیں،اگر ہمیں اپنے من میں چھپے ان بہت سارے آئیڈیاز کا علم نہیں،تو ان آئیڈیاز کے بارے میں جانیں کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور ہمارے پاس ہے کیا؟ اس طرح سے ایک شاندار خزانے کو پائیں بھی۔

تازہ ترین