جب آپ کسی پر اندھا اعتبار کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ وہ آپ کو ہی اندھا سمجھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر ایک ایسی اندھیر نگری قائم ہو جاتی ہے کہ جہاں سب کچھ دکھائی دینے کے باوجود بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جہاں آپ گلے کسی اور کو لگانا چاہتے ہیں مگر لگ کوئی اور جاتا ہے، گریبان کسی اور کا پکڑنا چاہتے ہیں گرفت میں کوئی اور آجاتا ہے، اسی اندھیرے کی وجہ سے سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے اور جن پر یہ اندھا اعتماد کیا جاتا ہے وہ آپ کے اس اندھے پن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں کراچی ہوں اور بس اسی صورتحال سے آج کل میں دوچار ہوں۔ شاید آج کل ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے اور نجانے کب تک رہوں۔ شاید میری بستیوں میں بسنے والے باسی اس اندھے پن کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ وہ اب روشنی سے ڈرنے لگے ہیں تبھی تو اس اندھے اعتبار کی بستی سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔ ایک دفعہ پھر مجھے بنیاد بناکر اپنی اپنی پارسائی کے دعویدار نمودار ہوئے ہیں، اپنی اپنی کمر کس کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، صرف الفاظ ہی سے اپنی اپنی کامیابیوں کی ٹرافی اُٹھانے کو تیار ہوگئےہیں۔ یہ ٹرافیاں، یہ ایوارڈز، یہ تمغے پہلے بھی لوگ اٹھاتے رہے اور اپنے اپنے ترانے گاتے رہے مگر میں تو جہاں کھڑا تھا وہاں سے بھی کئی میل پیچھے چلا گیا۔ قیادت کے دعویدارجیتتے رہے اور میں ہارتا رہا۔ اپنی مدد کے لئے ایک ایک کو پکارتا رہا مگر جو بھی مدد کو آیا اندھے اعتبار کے بدلے اندھیرا ہی دے گیا۔ میں پھر بھی ان کے سارے وار سہہ گیا صرف اس امید پر کہ میرا دشمن جلد ہی سو جائے گا اور جن پر میں نے اندھا اعتبار کیا اُن کے حصے کا سویرا کچھ میرا بھی ہوجائے گا مگر شاید یہ سفر ابھی اور باقی ہے۔ کبھی میری سڑکوں پر پڑا کچرا ان کے سر کا تاج بن جاتا ہے اور کبھی یہی کچرا ان کے درمیان ظا لم سماج بن جاتا ہے میں تو ہمیشہ اِن کو پرچی سے عزت دلاتا آیا مگر یہ کبھی بھی خود کو پرچے سے نہ بچا سکے۔ کبھی ہیر پھیر کا پرچہ تو کبھی آپس کی مڈ بھیر کا پرچہ لگتا ہے پرچے سے اور پرچی سے کھیلنا ان کا شوق بن چکا ہے۔ ذرا ایک نظر میری طرف بھی تو دیکھو میں تو سب کے لئے بڑا دل رکھتا ہوں، میری بانہیں تو سب کو خوش آمدید کہتی ہیں، میں نے تو کبھی بھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ میری راہوں میں آنے والا ہر شخص میری بانہوں میں ہی آیا اور اُس کی آہوں کو میں نے اپنی ہی آہیں سمجھا، جو کچھ کر سکتا تھا، کیا۔ جو دے سکتا تھا، دیا۔ چاہے زلزلہ سے متاثر ہونے والے ہوں یا وزیرستان کی پہاڑیوں پر سونے والے، چاہے سندھ کے سیلاب میں بہہ جانے والے یا ایک دفعہ میری گلیوں میں آکر ہمیشہ ہی ادھر رہ جانے والے، میں سمندر کنارے سمندر سے بڑا دل لیکر جی رہا ہوں اور ہر روز آنسوئوں کا ایک سمندر پی رہا ہوں۔ صرف اور صرف اپنے وطن کی خوشی کے لئے اس امید پر جی رہا ہوں کہ کبھی تو میرے باسیوں کو اس اندھے اعتبار کا صلہ ملے گا کہ جب ان کی آنکھ کھلے تو ان کو ہر طرف روشنی ہی روشنی نظر آئے۔ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے ایک دوسرے پر لگائے جانے بدترین الزامات کے گند سے اُٹھنے والی بدبو سے متاثر ہونے والی میری گلیاں، میری سڑکیں، میرے محلے اور ان میں بسنے والے میرے بوڑھے، میرے جوان اس کو آپس کے اتحاد اور خود پر یقین کی ایک ایسی خوشبو میں بدل دیں کہ پھر اندھا اعتبار بھی روشنی پھیلانے کے لئے میرے ساتھ کھڑا ہو جائے اور سوچ اور ذہنیت میں کچھ تو بڑا ہو جائے۔ تم چاہتے تو ہو کہ ہر طرف صفائی ہو مگر تم خود ہی ہر موڑ پر کچرے کے ڈھیر بھی لگاتے ہو، سوچو پھر کیسے صفائی تمہارا ساتھ دے گی؟ تم آج لاہور کی ترقی کو بڑے رشک سے دیکھتے ہو اور اپنی بدحالی پر روتے ہو مگر اس کے ذمہ دار تم خود ہو، تم نے ہی یہ دیواریں، یہ پُل، یہ فٹ پاتھ اپنے نعروں اور جھنڈوں سے بھر دئیے ہیں۔ آج مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ میرا اصل رکھوالا ہے کون، ہر طرف سے ایک نئی آواز آتی ہے تبھی تو میں ترقی نہیں کر پا رہا۔ جب تک تم متحد نہیں ہوگے، میں ترقی نہیں کروں گا۔ یا تو یہ فیصلہ کر لو کہ متحد ہوکر رہنا ہے یا پھر میرے حال پر جلنا کُڑھنا اور لڑنا چھوڑ دو کیونکہ یہ سب کچھ تمہارا ہی دیا ہوا ہے۔
کہیں پیلا جھنڈا، کہیں نیلا اور کہیں لال، ہر وقت کرتا ہے تم سے سوال کہ کیوں آرہا ہے میری ترقی کو زوال؟ ذرا سوچو اگر یہ پیلا اور نیلا مل جائے تو ہرا بن جائے گا اور ہرا ہی تو سب کچھ ہے، زندگی بھی، خوشی بھی اور خواہش بھی، ذرا سوچو اگر آج بھی تم صرف میرے لئے ایک ہو جاؤ تو اس کا فائدہ مجھے نہیں تمہیں ہوگا۔ صاف محلے ملیں گے، آباد گلیاں ملیں گی، مضبوط سڑکیں ملیں گی، روشنی ملے گی، محبت ملے گی، ترقی ملے گی، غرض ہر وہ نعمت ملے گی جو اتحاد اور بھائی چارے میں پوشیدہ ہے۔ ذرا اپنے اپنے نعرے سے نکل کر دیکھو مجھے تمہاری کتنی شدید ضرورت ہے اپنے لئے نہیں تمہارے لئے تاکہ میں تمہاری زندگیوں کو سہل کر سکوں ہر خوشی کو تم تک پہنچانے میں پہل کر سکوں۔