• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر : افتخار احمد۔۔ جرمنی
جنت ارضی کا ٹکڑا کشمیر جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما کر کشمیریوں پر ظلم وبربریت کےجو پہاڑ توڑے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ایک ماہ سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا کرفیو کی آڑ میں بھارتی فوج کشمیریوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر ان کے عزم اور حوصلے کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو یقیناً کامیاب نہیں ہوں گی بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں جو جانوروں کے حقوق کے لئے تو فوراً تڑپ اٹھتیں ہیں مگر مسلمانوں کے بہتے خون پر خاموشی کو ہی ترجیح دے رہی ہیں ایک عیسائی عورت آسیہ کی رہائی کے لیے دن رات چیخنے والے بھی آج سکتے میں ہی ہیں پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے بھی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی ایسی مثالیں قائم کیں ہیں جنہیں کشمیری کبھی فراموش نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ کے بعد اگر آج کشمیریوں کو کسی سے امید ہے تو وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے ہی ہے جو انشاللہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے صرف منکرین ختم نبوت ہی ہیں جو بھارت کے خلاف نکالے گئے کسی جلوس ریلی یا احتجاج میں شامل نہیں ہوئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں بھارتی موقف کی تائید کرتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ جلسے جلوسوں یا احتجاجات کو مناسب نہیں سمجھتے عرصہ قبل جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ان پر بہت سی پابندیاں عائد کی گئیں تو انہوں نے یہی حربہ نہایت کامیابی سے استعمال کیا تھا جرمنی کے اس وقت کے دارالحکومت بون میں جہاں دنیا بھر کے سفاتخانے اور قونصل خانے موجود تھے کے سامنے ہزاروں قادیانی جن میں وہیل چیئر پر بیٹھے معذور افراد کنڈر ویگنوں پر بیٹھے دودھ پیتے بچے بوڑھے ضعیف، جوان، خواتین اور بچیاں جوق در جوق ہر سفارتخانے کی چوکھٹ پر سر پیٹتے اور دہائیاں دے کر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتے نظر آئے اس بہت بڑے جلوس اور احتجاج نے جہاں ان کے لئے اسائلم کے راستے کھولے وہاں اپنی آواز بھی ساری دنیا میں پہنچائی دنیا بھر کا میڈیا وہاں موجود تھا ظاہر ہوا کہ منکرین ختم نبوت کو جلوس اور احتجاج کی اہمیت کا بھرپور اندازہ ہے مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب یہودی فلسطین کے مسلمان بچوں اور بڑوں کے گلے کاٹ رہے ہوں یہ خاموش رہتے ہیں جب کوئی عیسائی ممالک مل کر عراق کو ملیا میٹ کر دیں ان کی آواز نہیں نکلتی جب کشمیریوں پر بھارت ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کے زندہ ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا پاکستانیوں نے جہاں جہاں بھارتی بربریت کے خلاف آواز اٹھائی عیسائی اور سکھ بھی اس میں شامل تھے اگر کوئی نہیں تھا تو منکرین ختم نبوت نہیں تھے تو پھر ثابت یہی ہوا کہ مسلمانوں کے ساتھ جہاں کہیں بھی ظلم ہو ان کا قتل عام ہو ان کی خواتین کی عصمت دری وہ ہمیشہ مخالف گروہ کے ساتھ ہوں گے ( بین الاقوامی اداروں میں کسی کے خلاف ووٹ نہ ڈالنے والے کو اس کی حمایت ہی تصور کیا جاتا ہے ) چند سال قبل ملکہ برطانیہ کا پالتو کتا مر گیا تو جماعت احمدیہ کے خلیفہ وقت نے ملکہ کو نہایت افسوس کا خط لکھ کر اس سے ہمدردی کا اظہار کیا جب کہ آج کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے اس کے پاس ہمدردی کے چند الفاظ بھی میسر نہیں ہیں ایک عیسائی ملکہ کے کتے کی اہمیت ان کے نزدیک کشمیری خون سے کہیں زیادہ قیمتی نظر آ رہی ہے ابھی حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے جب امریکہ کا دورہ کیا تو عین اسی وقت ایک بوڑھا احمدی جسے ایک جرم کی پاداش میں قبل از وقت جیل سے رہا کیا گیا تھا ٹرمپ کے آفس میں واشنگٹن جا پہنچتا ہے اور سلمان تاثیر کے بیٹے کے توسط سے اسے پاکستان میںاحمدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلموں کی ایک من گھڑت کہانی سنا کر پاکستان سے غداری کا مرتکب ہوتا ہے اس کے وقت کا انتخاب یقینا زبردست تھا جو پاکستان کی مشکلات اوراحمدیوں کی سہولیات میں اضافے کا باعث بنا مگر مقام حیرت ہے کہ اس شخص پر پاکستان میں نہ تو کوئی مقدمہ درج ہوا اور نہ ہی اس کا پاسپورٹ ظبط کیا گیا اس کے علاؤہ چناب نگر میں موجودان کے موجودہ ایگزیکٹو کو بلا کر اس بارے میں سرزنش یا کوئی تحقیق کرنا تک مناسب نہ سمجھا گیا اگر یہی حرکت کوئی موجودہ زیر عتاب اپوزیشن کا شخص کرتا تو نہ صرف اس پارٹی کو بین کر دیا جاتا بلکہ اس شخص کے خاندان اور جاننے والے بھی غائب کر دئے جاتے ان کے بینک اکاؤنٹ اور جائدادیں بحق سرکار ضبط ہو چکی ہوتیں کیا حکومتی ٹولہ یہ بتا سکتا ہے کہ اتنی کرامات کی وجوہات کیا ہیں ؟ ۔
ہمارے وزیراعظم بار بار اقلیتوں کو وی آئی پی کا درجہ دینے کی مسلسل بات کرتے چلے آ رہے ہیں جن میں احمدی سر فہرست ہیں کرتارپور راہداری سکھوں سے زیادہ احمدیوں کو سہولیات بہم پہنچائے گی ان کے مرکز کا فاصلہ وہاں سے محض 45 منٹ کا ہو گا اس راہداری کی سہولیات بہم پہنچا کر جو کام حکومت سکھوں سے لینا چاہتی ہے وہی فریضےیہ بھارت کے لئے سر انجام دیں گے اگر تحقیق کرنے والے ادارے اس سے بے بہرہ ہیں تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے نشتر کند ہو چکے ہیں۔
تازہ ترین