• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیاہے اور کہا ہے کہ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرے کا سکڑنا ملک اور آئینی جمہوریت کے لیے بہتر نہیں ہے ،اس موقع پر انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف جاری ریفرنس کے بارے میں بتایا کہ سپریم کورٹ میں ان کی پٹیشن کے فیصلے ہونے تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔انہوں نے اس تاثر کو بھی زائل کردیا کہ کوئی بھی فیصلہ میرٹ سے ہٹ کر نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے پاکستان میں میڈیا پر جاری قدغنوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی آواز یا رائے کودبانا دراصل بداعتمادی کو جنم دیتا ہے جس سے معاشرتی تنائو پیدا ہوتا ہے ،جو جمہوریت کے لیے بہت خطرناک ہے۔پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران تحریک انصاف کی حکومت کا پیدا کردہ ہے۔حالانکہ حزب اختلاف نے 2018ء کے الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن انتخابات کے بعد بجائے اس کے کہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرائی جاتیںاس کی جگہ ایک باقاعدہ مہم کے ذریعے ’’احتساب‘‘کو مرکزی سیاسی حیثیت دلوا دی گئی۔بظاہر احتساب کے حصول سے کوئی بھی پاکستانی شہری انکار نہیں کرسکتاکیونکہ احتساب جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہے جو سماج میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے لازم ہے لیکن احتساب کرنے کے لیے احتساب کی جائز اور موثر حیثیت کا بحال ہونا لازمی ہے یعنی کہ یہ احتساب داخلی طور پر ایک تسلسل کا حصہ ہواور اس کا اطلاق جامع طورپر ہونہ کہ ہر انتخاب کے بعد احتسابی عمل اپنے من پسند ملزموں کو ڈھونڈ نکالے۔احتساب کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ سب پر یکساں طور پر لاگو ہو،اسی طرح قانون میں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ احتساب نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ اس کے ہونے سے یہ احساس بھی پیدا ہوکہ احتساب ہوا ہے،یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ احتساب کو مجموعی دائرے اور اس کے بنیادی معیار سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔تحریک انصاف کی طرف سے جاری کردہ حالیہ احتساب کسی معیار پر پورا نہیں اترتااور چیف جسٹس کا حالیہ بیان اس کی غمازی کرتا ہے۔موجودہ حکومت جب سے آئی ہے اس نے ریاست اور عوام کے درمیان رشتے کو کمزور سے کمزور تر کردیا ہے۔معاشی بدحالی، اقتصادی زبوں حالی،بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس موجودہ حالات کو سنبھالنے کا نہ تو کوئی حل اورنہ ہی کوئی ویژن۔ملک کی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور عملا ملک آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی نذر کردیا گیا ہے۔حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو احتساب کا نشانہ بنا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے،جمہوری و سیاسی ادارے تقریبا غیر فعال ہیں اور پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چیف الیکشن کمشنر کو آئین کی پاسداری کے صلے میں ریفرنس کا سامنا ہے حالانکہ یہ ریفرنس صدر اور وزیراعظم کے خلاف ہونا چاہیے تھا جنہوں نے کھلم کھلا آئین کی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ججوں کی تقرری کی تھی۔وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا بیان کہ وفاق کو چاہیے کہ کراچی کو اپنے زیرانتظام لے لے ،ابھی سیاسی کشیدگی تھمی ہی نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنا خورشید شاہ کو نیب راولپنڈی کی جانب سے حراست میں لے لیا گیا ہے،بجائے اس کے کہ تحریک انصاف کی حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کا کوئی حل تلاش کرے وہ احتسابی انتقام کے ذریعے ملک کو مزید بحرانوں میں دھکیل رہی ہے۔یاد رہے خورشید شاہ جیسے معتدل سیاسی رہنما کی گرفتاری سے موجودہ سیاسی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔آج تحریک انصاف کی قیادت کو باور کرنا ہوگا کہ یہ احتسابی انتقامی کارروائیاں کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔

ایک اچھا کرکٹر ہونا اور ورلڈ کپ جیت لینا اس بات کی غمازی نہیں کرتا کہ آپ پاکستان کے پیچیدہ سیاسی مسائل کو بھی حل کرسکیں گے اور وہ بھی ایک ایسا شخص جو اپنی انا کی وجہ سے مشہور ہو۔عمران خان نے بطور کرکٹ کپتان کے کرکٹ بورڈ ،سلیکشن کمیٹی اور ٹیم منیجر کے اداروں کو اپنے سامنے سرنگوں رکھااور اسی پالیسی کا تسلسل وہ پاکستانی سیاست میں بھی دہرا رہے ہیں۔ان کی کابینہ میں زیادہ تر وزراء غیر منتخب ہیں،یہ عمل بنیادی طور پر جمہوریت کی روح سے متصادم ہے۔یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ انہوں نے عثمان بزدار کو جو کہ سیاسی بھٹی میں پوری طرح پکے بھی نہیں تھے اور جن کا وژن تونسہ کے ایک گائوں تک محدود ہے ،انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا جس پر پوری قوم اور تحریک انصاف کے کارکن حیرت زدہ ہیں لیکن میرے کپتان کی انا کے سامنے یہ تمام حیرتیں ہیچ ہیں۔

پاکستان میں عمران خان کو وزیراعظم بناکر جو تجربہ کیا گیاہے اور انہوں نے جس طرح احتساب کے عمل کو بدنام کیا ،صوبائی خود مختاری اور وفاقیت کو شدید ٹھیس پہنچائی،اٹھارویں ترمیم کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں،مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کا جینا دوبھرکیا ،یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے۔سیاست اور وہ بھی تیسری دنیا کے ملک میں بڑی جان جوکھوں اور بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور یہ ذمہ داری صرف وہی لوگ ہی نبھا سکتے ہیں جو سیاسی بالیدگی کی رمز سے سرشار ہوںنہ کہ خودساختہ اناپرستی کے خول میں مقید ہوکررہ جائیں۔آج وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کریں ،اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں ،اکیسویں صدی میں ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا حصہ بنیں اور اس کے ثمرات نناوے فیصد غریب عوام تک منتقل کریں۔

تازہ ترین