گرین لینڈ ڈینش زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ’’لوگوں کی سرزمین‘‘ ہے۔ یہ بحرِ منجمد شمالی اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان میں واقع ہے۔رقبے کے لحاظ سےگرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے لیکن یہ براعظم کا در جہ نہیں رکھتا اوردنیا کا سب سے کم گنجان آباد ملک بھی یہی ہے ۔اس کے مغربی حصے میں کینیڈا کا کچھ علاقہ موجود ہے ۔تاہم 1950 ء سے سائنس دان اس بات کی تحقیق کررہے ہیں کہ یہاں ایک سے زیادہ جزائر موجود تھے جو برف کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے گئے ہوں ۔ اس کا مرکزی حصہ برف کے نیچے دبنے کی وجہ سے سمندر کی سطح سے نیچے دھنس گیا ہے ۔ماہرین ارضیات کے مطابق اگر یہ برف پگھل جائے تو گرین لینڈکا زیادہ تر وسطی علاقہ زیر آب آجائے گا ۔اس کا کل رقبہ 21,66,086 مربع کلومیٹر ہے جس میں سے گرین لینڈ کی برفانی تہہ کا رقبہ 17,55,637 مربع کلومیٹر ہے جو کل رقبے کا 81 فی صد بنتا ہے۔ اس طرح یہاں برف کی کل مقدار 28,50,000 مکعب کلومیٹر بنتی ہے۔ گرین لینڈ کا ساحل 39,330 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ ساحلی رقبہ خطِ استوا پر زمین کے کل محور کے برابر ہے۔ گرین لینڈ کا بلند ترین مقام 3859 میٹر بلند ہے۔ تاہم گرین لینڈ کا زیادہ تر رقبہ 1,500میٹر سے کم بلند ہے۔گرین لینڈ کی زیادہ تر آبادیاں برف سے پاک ساحلوں پر موجود ہیں اور مغربی ساحل پر ان کی کثرت ہے۔ شمال مشرقی علاقہ دنیا کے سب سے بڑے پارک پر مشتمل ہے۔گرین لینڈ کے انتہائی شمال میں پیئری لینڈ ہے جہاں خشک ہوا کے سبب برف موجود نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا اتنی خشک ہے کہ یہاں برف نہیں پیدا ہو سکتی۔ اگر گرین لینڈ کی پوری برف پگھل جائے تو دنیا بھر کے سمندروں کی سطح 7 میٹر تک بلند ہو جائے گی جب کہ گرین لینڈ بذات خود جزائر کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔
ماحولیاتی تنوع کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیے جا نے اس خطے میں گلیشیئرز پگھلنے سے نہ صرف تہہ ختم ہورہی ہے ،بلکہ دنیا بھر میں سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہو رہاہے ۔
بڑھتے عالمی در جۂ حرارت نے ماہرین ماحولیات کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کر ۂ ارض پر گرمی بڑھنے ے گرین لینڈ میں برف پگھلنے کا عمل توقعات سے زیادہ تیز ہو سکتا ہے ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے بارے میں ماضی میں جتنے بھی اندازے لگائے گئے تھے وہ سب غلط تھے ۔اسی لیے سائنس دانوں نے چار بڑے گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل کو جاننے کے لیے ایک مصنوعی نمونے کو بنیاد بناتے ہوئے سمندروں کی سطح کے بلند ہونے کی پیش گوئی کرتے رہتے ہیں۔ ماہرین نے امریکی خلائی ادارے ناسا کے سیٹلائٹ ڈیٹا کو بنیاد بنا کرارتقائی مراحل کے نکات کو جاننے کی کوشش کی ہے کہ 1993ء اور 2013 ء کے در میان گرین لینڈمیں گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل کتنا تیز رہا تھا ۔ گرین لینڈ میں پگھلنے والی برف کے عمل کو سمندروں کی سطح میںاضافے کا انتہائی اہم سبب تصور کیا جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق 2100 تک سمندروں کی سطح میں 9 انچ تک اضافہ ہو جائے گا ۔گرین لینڈ میں گلیشیئرز پگھلنے کے سبب عالمی در جہ ٔ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ماحولیا تی تبدیلیوں کو قابو کرنے کے لیےفوری طور پر ایک حتمی لائحہ عمل تر تیب دینے کی اشد ضرورت ہے ۔چند سال قبل ایک تحقیق کی گئی تھی جو آئندہ نسلوں کو گلیشئیرزکے پگھلنے کے بارے میںدرست اندازے فراہم کرے گی اور ماحول کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد دے گی ۔
2003 ء اور 2010 ء کے درمیان گر ین لینڈ پر برف پگھلنے کی رفتار بیسوی صدی کے مقابلے میں 3 گنا تیز تھی ۔گزشتہ تقریبا ًایک سو دس بر سوں میں گرین لینڈ کی 9 ہزار گیگا ٹن برف پگھل چکی ہے ۔بلکہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے کئی بر سوں کے دوران پگھلنے کے عمل میں کافی حد تک تیزی آئی ہے ۔یہاں پر 2003ء تک سالانہ 75 گیگا ٹن برف پگھلتی تھی ۔لیکن اس کے بعد پگھلنے کےعمل میں3 گنا اضافہ ہوااور اب سالانہ بنیادوں پر ایک 186 گیگا ٹن سے زائد برف پگھل رہی ہے ۔کئی بر سوں سے گلیشئر گرین لینڈ کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت رہا ہے ،کیوں کہ یہ اکثر کھڑی چٹانوں سے گھر اہوا اور وسیع آئس شیٹ سے ڈھکا ہوا تھا ،ان ہی چٹانوں اور شیٹ کی بدولت سمندر میں ان تنگ اور گہری کھائیوں کی تشکیل میں مدد ملی ۔حال میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مغربی گر ین لینڈ میں کھائیاں پہلے سے زیادہ گہری پائی جاتی ہیں ،جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی سمندری سطح توقع سے زیادہ اوپر ہوسکتی ہے ،کیوں کہ گلیشئرز گرم پانی کی شکل اختیار کررہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندری گھاٹیوں کی شکل اور گہرائی کی وجہ نے برف کی تہہ کو کا فی الجھا دیا ہے ،جو ممکنہ طور پر 20 فیٹ تک پگھل سکتی ہے اور اس سے سمندری پانی کی سطح میں بہت تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے ۔گرم ہوا برف کو پانی کے اوپر سے ختم کردیتی ہے اور گرم پانی جو گلیشئیرز کے نیچے ہیں ،وہ برف کو نچلی طرف سے پگھلانا شروع کردیتا ہے۔ارون کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ایک محقق کا کہنا ہے کہ یہ برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے ۔وہ سمندری پانی کی سطح کو اتنا ہی اوپر کررہی ہے اور گہری گھاٹیوں کا مطلب ہے گرم پانی گزرنے کی بہت سی جگہ ہے اور گر م پانی وہاں سے گزر کر گلیشئیرز تک پہنچ سکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اس خطے کے کچھ علاقوں میں سمندری گھاٹیاں 200 سے 300 میٹر تک گہری ہیں ۔اندازہ لگا یا جارہا ہے کہ پانی کی سطح کس حد تک بلند ہورہی ہے اور ٹھنڈے پا نی کی نسبت گرم پانی سے دو گنا پگھل سکتا ہے ۔سائنس دانوں کے مطابق موجودہ ریسرچ ماڈل کے تحت حساب کرنا مشکل ہے ،کیوں کہ اسے تبدیل کرنا ہوگا ۔پانی کے نیچے مشاہدہ کیا جائے تو سمندری آئس شیٹ میں ’’نیو فر نٹیئر‘‘ لگتا ہے ۔اس کے مختلف حصوں پر بھی تحقیق کی گئی،تا ہم یہ مہنگا اور وقت طلب کام ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمینی در جہ ٔ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر برف پگھلنے کا عمل جاری ہے اور سطح سمند ر میں بھی اضافےہورہا ہے ۔سائنس دانوں کے مطابق سطح سمندر میں 25 ملی میٹر کا اضافہ گرین لینڈ کے گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے ہوا ہے ۔مجموعی طور پر سطح سمندر میں اضافے کا اٹھارہ فی صد بنتا ہے ۔ماحولیا تی تبدیلیوں سے متعلق تحقیقی ادارے الفریڈ ویگز انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر کلائوس گروس فیلڈ کے مطابق یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ بر فانی دور کے بعد گرم دورکاآغاز ہولیکن انسانوں نے اس عمل کو کافی حد تک تیز کردیا ہے ۔ 2012 ء کےبعد گرین لینڈمیں گلیشئیرز پگھلنے کی رفتار سب سے تیز رہی ۔ کولوراڈو بولڈر یونیورسٹی میں امریکا کے قومی سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اگر گزشتہ 27برسوں کی سیٹلائٹ تصاویر کا جائزہ لیا جائے تو رواں برس گیارہویں مرتبہ سب سے زیادہ برف پگھلی ہے۔ اور یہ صرف گرین لینڈ نہیں ہے۔ ماحولیاتی ادارے این او اے اے کی رپورٹ کے مطابق آرکٹک بھی گرم ہوتا جا رہا ہے۔ آرکٹک میں درجۂ حرارت اوسط سے ایک عشاریہ تین گریڈ سیلسیس سےزائد ریکارڈ کیا گیا ہے اور ایسا گزشتہ 115 برسوں میں نہیں ہوا ہے۔ وہاں 20 صدی کے آغاز سے لے کر اب تک درجۂ حرارت تین گریڈ زیادہ ہو چکا ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ دنیامیں زندگی کی قدیم ترین نشانیاں گرین لینڈ میں پائی جانے والی قدیم ترین چٹانوں پر موجود لہروں کے نشانوں میں پو شیدہ ہوسکتی ہیں ۔یہ چٹا نیں تقریبا ً4 ارب برس پہلے سمندر کے فرش پر موجود تھیںاور ان پر پائے جانے والے چند سینٹی میٹر طویل لہر دار نشان ان کی باقیات ہوسکتی ہیں ۔جنہیں ’’اسٹرومیٹو لیٹیز ‘‘کہا جا تا ہے ۔یہ دریافت گرین لینڈ کے ویران علاقے میں ہوئی ہے ۔مذکورہ چٹانوں پر مستقل برف جمی رہتی تھی جو حال ہی میں پگھلی ہے ۔ 1990ء میں گرین لینڈ کےایک مقامی جیو لوجی کے پروفیسر منک روزنگ نے ان چٹانوں کی زندگی سے متعلق کیمیکل نشانات کی نشان دہی کی تھی ۔ان کے مطابق اس کے جر ثومے سطح سمندر میں رہتے ہوئے سورج کی روشنی حاصل کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ وہ مردہ ہو کر سمندر کی تہہ میں چلے گئے ۔اس بارے میں پروفسیر وین کرویڈک کا کہنا ہے کہ اس بات کے بہت سے شواہد ہیں کہ یہ اتھلے پانی کا ماحول تھااور پتھروں کو بھی دیکھ سکتے تھے کہ وہ طاقت ور لہروں کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئیں۔