• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے معاملات بھی عجب ہیں۔ نہ جانےکتنے دانش وَروں نے ان کی کھوج میں سات سمندر پار کیے، زمین کی گہرائیوں میں جھانکا، آسمانوں میں ڈھونڈا، مگر راز راز ہی رہا۔ اس کے نرالے رنگ ڈھنگ کی مکمل تشریح نہ کرسکا۔ دُکھ ، سُکھ سکّے کے دو رُخوں کی مانند ہیں ،جن کا دائمی ساتھ اٹل ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر موجود ہیں۔ پورا سُکھ اور مکمل دُکھ حاصل ہو جائے، تو خواہش اور ملال ہی باقی نہ رہے۔ شادمانی، آسائش اور وصال موجود ہو تو کھو جانے، بچھڑ جانے، اکلاپے اور کمی کا احساس کس طرح ہو۔

انسان جب اکیلا ہوتا ہے، تو اُس پر کئی حیرتیں وَا ہوتی ہیں۔ اگر وہ تخلیق کار ہو تو خود سے مکالمہ کرتا ہے،جو فن کی مختلف صُورتوں میں اُجاگر ہوکر ’’شاہ کار‘‘ کہلاتا ہے۔ وقتاً فوقتاً انسان کے احساسات پر زمانے اور فطرت کی چوٹوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تاکہ وہ اپنے خالق سے بےپروا نہ ہو جائے، بھول نہ جائے، کھو نہ جائے، ذات اور کائنات میں اپنے مقام اور مدار سے آگاہ رہے۔ 

گرچہ ادب، مصوّری، شاعری اور موسیقی سمیت تمام فنون دل و جان کو آسودگی اور روح کو تسکین فراہم کرتے ،فکر و نظر میں جمالیات کے رنگ بکھیرتے ہیں ، مگر خود ان کا آغاز حزن و ملال سے جُڑا ہے۔ گہرا کرب نایاب تخلیق کا باعث بنتا ہے، یوں اداسی اور ملال کا مثبت پہلو تخلیقی رنگ ہے۔ 

فن سے جُڑت رکھنے والوں کے علاوہ کوئی بھی فرد ان لمحات میں کسی نہ کسی حیرت سے ضرور گزرتا ہے۔ فن سے لطف اندوز ہونے کے لیے باطن میں احساس کے دئیے جلانےضروری ہیں۔ تخلیق کار کی حساسیت کایہ عالم ہوتاہے کہ کرب اور تنہائی سے اس کی گہری دوستی ہو جاتی ہے اور وہ اس سے حَظ اٹھانے لگتا ہے۔ شاید باہر کی دنیا اس کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتی یا باطن میں جلتی شمع اُس کی توجّہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہے۔

شاید دُکھ، کرب، حُزن اور ملال ہی وقت کے پہیے کی گردش کا سبب ہیں۔ اسی لیے کچھ انسان کی اپنی کاوش سے اور کچھ فطرت کی مہربانیوں سے اس کی جھولی دُکھوں سے بھری رہتی ہے۔ مظہر حُسین ذکی کا پہلا پنجابی شعری مجموعہ،’’ کومل خواہشات‘‘، احساسات وجذبات کی تصویر ہے۔ 

شاعر ایک ایسی جُھگی میں مقیم ہے، جِس کے چاروں طرف الاؤ ہے۔ درو دیوار سے آنے والی روشنی اور دھیمی آنچ اُسے مسلسل میٹھا درد عطا کرتی ہے۔ خوشی، محبت اور اُمید کی خوشبو والے پُھول تو ماحول کو مہکاتے ہی ہیں، مگر گہرے دُکھ کی دُھند نے بھی ہر شئے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 

انسان جو محسوس کرتا ہے، وہ دیکھ نہیں سکتا اور جو دیکھتا ہے وہ ہیولا ، عکس ، خلا اور غیر متوقع صورت ِ حال کے سامنے کا خوف ہے۔ درد میں ڈوبی حیات، اظہار کے ذریعے نہ صرف اپنے وجود کے ہونے کا اقرار کرتی ہے بلکہ تنہائی کے سنّاٹے میں حرف کا پہلا پتھر بھی پھینکتی ہے۔

گہرے پانیوں کی کشتی میں سوار پانی کے مزاج سے نا ان جان ملّاح کو ہر سانس کے ساتھ خود احتسابی کا دورہ پڑتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ،مگر مچھوں کی شکل دھار لیتی ہیں، بے عملی اور پچھتاوے کے بوجھ سے کشتی کے ڈوبنے کا خطرہ موجود ہے ،مگر خدا کے فضل و کرم سے کنارے پہنچنے کی طاقت وَر تمنّا بھی ہم راہ ہے،جو کوشش اور مقابلے پر اُکساتی ہے۔ 

کلاسیکی صوفیوں کی طرح دنیا کی بے ثباتی نئے رنگ ڈھنگ میں موجود ہے۔ میاں محمد بخش نے کہا تھا؎’’لوئے لوئے بھر لے کڑئیے ،جے تدھ بھانڈا بھرنا…شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا۔‘‘اورمظہر حسین ذکی کہتے ہیں؎’’حیاتی دا پینڈا مُک جانا جس دن…دل نے وی دھڑکنا رُک جانا جس دن…سچ دی ترکڑی تے تُل جاویں گی توں…سبھ لوبھ ،لالچ نوں بُھل جاویں گی توں۔‘‘ارد گرد موجود خوب صُورت نظاروں میں محبوب کی جھلک روح کو نہال تو کرتی ہے، مگر دل کے اندر ڈیرے ڈال کر بیٹھے دُکھ توجّہ کی ڈور فوراً کھینچ لیتے ہیں۔ 

یہ وہی دُکھ ہیں جن کے لیے شاہ حُسین نے ’’مائے نی میں کینہوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی‘‘ جیسا دِل چیردینے والا کلام لکھا۔ یہ درد روزِ ازل سے انسان کی روح کا نصیب اور ہر فرد کی میراث ہے۔ کبھی کبھی کچھ لمحوں کے لیے شاعر کی سوچ کو نا اُمیدی گھیر لیتی ہے، جب وہ ہر طرف شر، لالچ، بے انصافی اور ظلم کے مظاہرے دیکھتا ہے ،مگر انہیں روک نہیں سکتا تو بے بسی تِیر کی طرح اس کے دل میں چُبھتی ہے، مگر پھر وہ خود کو سنبھالتا ،سہانی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ 

لیکن موسم ، وقت اور ماضی کی حسین یادیں اُسے بے چین کر دیتی ہیں۔ ؎ڈُبدی ڈیگر دی لالی تَڑپا گئی اے…سُتیاں پِیڑاں آ کے فیر جگا گئی اے۔‘‘ اس شعر میں عصر کی سُرخی کو کسی عارض سے تشبیہہ دی گئی ہے، مگر بات زیادہ کھولی نہیں گئی اور اسی نے شعر کا حُسن بڑھا دیا۔ رسم و رواج اور تہذیب و تمدّن کی عکّاسی نہ صرف اس شاعری کو دھرتی سے جوڑتی ہے بلکہ اس کے رنگ مزید چمکا کر اس کے معنی کی وسعت اور ندرت کو عیاں کرتی ہے۔ 

تب ہی لوری، جہنیر، چوڑیوں اور دوسری اشیاء کا استعمال بہت نرالے ڈھنگ سے کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں مذہب کو ہمیشہ سیاسی اور سماجی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا رہاہے۔ اسی لیے کلاسیکی صوفیا نے ایسے ظاہر پرستوں کے خلاف ،جن کے قول و فعل میں تضاد تھا ، علی الاعلان آواز بلند کی۔’’اِکّو کندھ اُسار او بندیا…کیہہ اندر، کیہہ باہر او بندیا۔‘‘

کئی نظموں میں محبوب کے دیدار کی خواہش شاعر کے دِل کو اِس طرح جکڑ لیتی ہے کہ اس کی آنکھوں کی اسکرین پر اس کا جلوہ منعکس ہونے لگتا ہے۔ ؎’’جیویں سوہنا شہر قصور…توں ایں بُلّھے شاہ دا طور…جیویں سوہنا شہر قصور…میں دیوانہ تیرا ہاں…توں ہیں میری حور…جیویں سوہنا شہر قصور…بوہتا نِیڑے لگناں ایں…جنّاں ہوویں دُور…جیویں سوہنا شہر قصور۔کمال کی بات یہ ہے کہ شاعر مجازی اور حقیقی محبّت کی بات کرتے ہوئے اپنے وجود کا تصوّر باقی رکھتا ہے اور پورے احساس و جمال کے ساتھ اپنی چاہت کا اظہار کرتا ہے ،جس سے رومانیت عروج پر دکھائی دیتی ہے۔’’مٹّی دئیے مورتے‘‘ جیسے کئی خوب صُورت گیت بھی دِل میں سماتے محسوس ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر مظہر حُسین ذکی کی شاعری ،شعری جمال سے مزیّن ہونے کے باعث دِل میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں ہر صنف موجود ہے۔عشق کے مرحلے اور محبّت کے مدُھر جذبوں کی بہار ہے، تو خونی رشتوں کی پکار بھی۔ زمین سے جُڑی قدروں کا بیان ہے، تو سچ کہیں تو اِس میں اِک وسیع جہان ہے، مگر اس کی روح دنیا کی بے ثباتی، عشق اور انسانی وحدت ہے۔ یعنی وہی سبق، جو ہر صوفی میں مشترک ہے۔؎’’ہر اِک مذہب امن سکھائے ،کیہڑی سنگ دی گل اے…سارے اِک آدم جائے فیر کیوں جنگ دی گل اے۔‘‘

تازہ ترین