• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

29ستمبر کو ’’عالمی یومِ قلب‘‘ منایا جارہا ہے


عالمی ادارۂ صحت اور ورلڈہارٹ فائونڈیشن کےاشتراک سے ہر سال دنیا بَھر میں 29ستمبر کو ’’عالمی یومِ قلب‘‘ منایا جاتا ہے۔امسال جو تھیم منتخب کیا گیا ہے، وہ"Be a Heart Hero" ہے۔ 1998ء میں ورلڈ ہارٹ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی گئی، تاکہ ہر سطح تک امراضِ قلب سے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر عام کی جاسکیں۔ مذکورہ فاؤنڈیشن کےدو سو سے زائد ممبر مُمالک ہیں، جواس روزخاص طور پراپنے اپنے مُلکوں کےاسپتالوں اور صحت کے دیگر مراکز میں مختلف پروگرامز اور سیمینارز کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال ورلڈہارٹ فائونڈیشن نے2025ءتک امراضِ قلب سے ہونے والی اموات میں 25 فی صد تک کمی لانے کا ہدف مقرر کیا ہے اور اس مشن میں پاکستان بھی شامل ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سےحال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق’’ امراضِ قلب سےدُنیا بھر میں ہر سال 17.5ملین افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں‘‘۔ یعنی اس وقت دُنیا بَھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ قلب کے عوارض ہی ہیں،جو دِل کے مختلف حصّوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان امراض کے لاحق ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔جن میں ایک بڑی وجہ تمباکو نوشی کا استعمال ہے۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق تمباکو میں تقریباً چار ہزار مضرِصحت کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں،جو دِل کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ تاہم، ان مضرِ صحت اجزا میں شامل کاربن مونو آکسائیڈ دورانِ خون کا نظام سُست کرکے رگیں بھی آہستہ آہستہ سخت کردیتی ہے۔یہ بُری علّت دِل کی شریانوں پر انتہائی مضراثرات مرتّب کرتی ہے،جب کہ خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھنےکے سبب وہ جسم اور دِل کی شریانوں میں جمنے لگتا ہے۔ 

واضح رہے کہ ایک عام فرد کی نسبت، تمباکو نوش افراد میں دِل کی رگوں میں خون جمنے سے اچانک دِل کے دورے اور موت کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق تمباکو نوش خواتین، مَردوں کے مقابلے میں زیادہ مضراثرات کی زد میں رہتی ہیں، کیوں کہ قدرتی طور پر ان کی شریانیں نسبتاً باریک ہوتی ہیں اور جب سگریٹ کا استعمال اُن کا ایسٹروجن ہارمون (Estrogen Hormone)کم کردیتاہے،تودِل کی شریانوں میں خون جمنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ عارضۂ قلب لاحق ہونے کے رسک فیکٹرز میں بُلند فشارِ خون بھی شامل ہے،جسے’’خاموش قاتل‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس مرض میں بتدریج جمع ہونے والے کولیسٹرول پر دباؤ پڑنے کے نتیجے میں خون شریانوں میں جم جاتا ہے، جو زیادہ تر مریضوں میں اچانک ہارٹ اٹیک یا موت کا باعث بن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بُلند فشارِخون کو مرض ہی نہیں سمجھاجاتا ،کیوں کہ ابتدا میں علامات اس قدر خفیف ہوتی ہیں کہ زیادہ ترمریض یہی گمان کرتے ہیں کہ سب کچھ نارمل ہے، مگر یہی غفلت آگے چل کر خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

اصل میں جسم کی تمام رگیں خون کا دباؤ بڑھنے سے سخت ہوجاتی ہیں اور ان کے اندر کولیسٹرول جمنے کا عمل تیزی سے شروع ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہ خون کا دباؤ بڑھ جانے کی زد میں آنکھیں، دِل، دماغ اور گُردے، سب آسکتے ہیں۔ 10سے 15سال کے عرصے میں بُلند فشارِ خون سے متاثرہ مریضوں کے گُردے بتدریج کم زور ہونے لگتے ہیں ،یہاں تک کہ معاملہ ڈائی لیسز تک جا پہنچتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ ڈائی لیسز کے زیادہ ترمریض بُلندفشارِخون کو معمولی مرض جان کر ادویہ کا استعمال نہیں کرتے،اس کے برعکس جومریض اپنی خوراک کا خاص خیال رکھتے ہیں اور باقاعدگی سے ادویہ استعمال کرتے ہیں،وہ مرض کی سنگین پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

بلڈ پریشر کے مریضوں میں دِل کے دورےکے علاوہ ہارٹ فیلئیراور دِل کاوالو لیک ہونا (Mitral Regurgitation) بھی بہت عام ہے۔دِل ایک تسلسل سےپمپ کی طرح پورے جسم کوخون فراہم کرتا ہے، لیکن جب خون کا دباؤ بڑھ جائے، تو اُسے مزید طاقت کے ساتھ خون پمپ کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ دِل اور اس کے پٹّھے کم زور ہونے لگتے ہیں،جب کہ حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔اس مرض کو طبّی اصطلاح میں Dilated Cardiomyopathy کہا جاتا ہے، جس کا علاج بلڈ پریشر کنٹرول کرکے مخصوص ادویۂ قلب کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں یہ مرض لاحق ہونے کی وجہ موروثی ہوتی ہے،جب کہ10فی صد مریضوں میں ثانوی وجہ پائی جاتی ہے، جیسے تھائی رائیڈ گلینڈز، اینڈوکرائن ڈیزیز(Endocrine Disease)،حمل اور نشہ آور اشیاءخاص طور پر آئس، کوکین اور چرس کا استعمال۔

موٹاپا اس وقت ایک عالمی مسئلہ بن چُکا ہے، جس سے ہمارا مُلک بھی متاثر ہے۔ اگر موٹاپے کی وجوہ کی بات کی جائے، تو عمومی طور پر سرِ فہرست بسیارخوری ہی ہے، جب کہ نامناسب طرزِ زندگی اور ورزش نہ کرنے جیسے عوامل بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ایک فربہی مائل فرد کے اعضائے رئیسہ کے گرد چربی کی ایک بڑی تہہ جمع ہونے کے نتیجے میں لبلبے کا کام سُست پڑجاتا ہے اور دِل کے پٹھے کم زور ہوجاتے ہیں۔نیز، ذیابطیس اور بُلند فشارِخون کے عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

موٹاپے کے وجہ سے فربہ افرادکاچلنا پھرنا دوبھر ہوجاتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ چلنے پھرنے میں دشواری کے سبب زیادہ ترافراد یہ سوچ کر چہل قدمی کرتے ہیں کہ اس طرح ان کاموٹاپا کم ہوجائےگا، مگر افاقے کی بجائےاس میں مزید اضافے کے ساتھ"Vicious cycle"کا آغاز ہوجاتا ہے۔ یعنی ورزش میں کمی سے موٹاپا اور موٹاپے سے مزید چلنا پھرنا دشوار۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اور مریض بیٹھے بیٹھے سُستی اور زیادہ کھانے کی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔علاوہ ازیں، بسیار خوری کی وجہ سےخون میں چربی بڑھنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیںاور یہ عمل جسم کی شریانوں کے بند ہونے کا باعث بنتا ہے ۔

زائد وزن کےحامل افراد کو عام طور پرچلنے سے ٹانگوں میں درد ہوتا ہے، جو اصل میں Peripheral vascular disease کہلاتی ہے۔ موٹاپے کے ان تمام مسائل کا علاج ممکن ہے، بشرطیکہ مریض اپنی قوّت ارادی سے کام لے کر خود کو سُستی اور بسیار خوری کے اس خطرناک دائرے سے نکالنے پر راضی ہو جائے۔بلاشبہ ایسے مریض ہم سب کی توجّہ کے خاص مستحق ہوتےہیں۔

اسی طرح ہائی کولیسٹرول (Dyslipidemia)بھی عارضۂ قلب میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔انسانی جسم کی بنیاد خلیات ہیں۔قدرتی طور پر ان میں کولیسٹرول کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہے، جو خون میں بھی ایک خاص تناسب میں شامل رہتی ہے۔ کولیسٹرول خون میں موجود چکنائی کو کہتے ہیں۔ انسانی جسم ، کولیسٹرول خوراک سے حاصل کرتا ہے اور بوقتِ ضرورت خود بھی چربی بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چکنائی کو توانائی کا ذریعہ بنایا ہے، لیکن جسم میں اس کا تناسب ایک خاص حد میں رہنا بے حد ضروری ہے۔ کولیسٹرول میں اضافے کے نتیجے میں رگوں میں کولیسٹرول جمنا شروع ہو جاتا ہے اور دورانِ خون سُست پڑ جاتا ہے۔ ہائی کولیسٹرول کے مریض اِسی وجہ سے دِل کے دورے کا شکار ہوتے ہیں۔

کئی خاندانوں میں ہائی کولیسٹرول کامرض موروثی ہوتا ہے، لہٰذا ایسے مریضوں کے لیے کولیسٹرول کی مقدار کم کرنے کی ادویہ کا استعمال ناگزیر ہے۔ بلاشبہ ترقّی کا سفر طے کرتے ہوئے انسان نے اپنے لیے کئی آسانیاں پیدا کرلی ہیں۔ جیسے خط کی جگہ موبائل میسج اور ملاقات کی بجائے فون کال وغیرہ۔مگر ان آسانیوں کے ردِّعمل میں گھر میں مل جُل کر رہنے کی برکات ختم ہوکے رہ گئی ہیں۔پھر آج کا انسان ماضی کی نسبت زیادہ تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ 

مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سےتمام تر مشکلات کا اکیلے ہی سامنا کرنا پڑتا ہے، تو معمولی معمولی باتیں بھی ذہنی تناؤ کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد افرادذہنی دباؤ سے کم زور پڑکر گھبراہٹ، بے چینی، خوف اور ڈیپریشن جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ذہنی دباؤ جسم میں Adrenaline نامی ہارمون پیدا کرتا ہے، جو بُلند فشارِخون،رگوں کے سکڑنے پر دِل کے دورے اور اچانک موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات صدمہ یا اسٹریس اچانک موت کا سبب بن جاتا ہے۔

ذیابطیس کی شرح میں پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں ذیا بطیس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق ہر 11افراد میں سے ایک فرد ذیابطیس کا مریض ہے،جو کہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ امراضِ قلب میں مبتلا ہر دوسرا مریض ذیابطیس کے عارضے کے ساتھ تشخیص ہورہا ہے۔ یہ کہ ایسی بیماری ہے ،جو جسم کے ہر عضو کو متاثر کردیتی ہے۔ چوں کہ ذیابطیس سے متاثرہ مریضوں میں بعض عوامل جیسے بُلند فشارِ خون، دِل کی شریانوںکی تنگی،دِل کے پٹھوںکی کم زور ی،ہائی شوگر سے خون گاڑھا ہونا اور جمنا وغیرہ جسم کو کم زور کردیتے ہیں،تو لامحالہ دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اور یہی عوامل مل کر شوگر کے مریض کو دِل کا مریض بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہارٹ اٹیک، انجائنا، دِل کا فیل ہوجانا، اچانک موت (Sudden Cardiac Death) بھی ان مریضوں میں عام ہیں۔

یاد رکھیے، صحت مند، توانا دِل ہی صحت مند زندگی کی ضمانت ہے، لہٰذا عوارضِ قلب سے محفوظ رہنےکے لیےسب سے پہلے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا، جس کے لیے چند آسان اور سادہ باتوں پر عمل کرکے امراضِ قلب کے امکانات معدوم کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہیں، تواس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے،جس کے لیے صرف مضبوط قوّتِ ارادی درکار ہے۔ایک سگریٹ زندگی کے12منٹ کم کر دیتی ہے،لہٰذا جب تمباکو نوشی کا خیال آئے تو اپنے بچّوں اور خاندان کے دیگر افراد کےبارے میں سوچیں۔ایسے دوستوں کی صحبت سے دُور رہیں، جو اس لَت کا شکار ہیں اور ان تمام محفلوں میں جانے سے گریز کریں،جہاں سگریٹ نوشی کی جاتی ہو۔ تمباکو چھوڑنے سے دِل کےدورے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور پھیپھڑوں کے کام کی صلاحیت میں بھی 30 فی صد اضافہ ہوتا ہے۔

یاد رکھیے، یہ وہ علّت ہے، جس کا انجام امراضِ قلب، ذیابطیس، فالج ہی نہیں، بلکہ مُنہ، حلق، پھیپھڑے، جگر، بڑی آنت کا سرطان،گلے میں خراش،اندھا پن، اعصابی اور مدافعتی نظام کی کم زوری، سَر کا بھاری پن یا پھر موت ہے۔کولیسٹرول کی مقدار کم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو ان غذاؤں کا استعمال کم سے کم کریں، جن کا ماخذ اینیمل فیٹس(Animal fats)ہوں، کیوں کہ ان میں جذب نہ ہونے والی چربی زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے۔ بیکری کی اشیاء سے پرہیز اور زیتون کا تیل استعمال کریں۔باقاعدگی سے ورزش بھی کی جائے۔ ذیابطیس کے عارضے پر قابو پانا مریض کے اپنے اختیار میںہے۔ 

جیسے کھانا سنّتِ نبویﷺکے مطابق بھوک رکھ کر کھائیں،روزمرّہ کی غذا میں پھل، سبزیوں کازیادہ استعمال اور روزانہ آدھ گھنٹہ خالی پیٹ چہل قدمی کی جائے۔اپنے معالج سے غذائی چارٹ اور ادویہ کی خوراک تجویز کروالیں۔ اگر معالج نے انسولین تجویز کی ہے، تو اس کے استعمال سے قطعاً نہ گھبرائیں کہ انسولین مرض پر قابو پانے میں مفید ثابت ہوتی ہے۔جَو کا دلیہ اور سیب کا سرکہ ذیابطیس کے مریضوں کو دِل کی بیماریوں سے بچاتا ہے،لہٰذا ان کا استعمال ضرور کریں۔

اسی طرح جو مریض بُلند فشارِخون میں مبتلا ہیں سب سے پہلے نمک کا استعمال کم سے کم کردیں،جب کہ گائے کا گوشت، مرغّن اور تلی ہوئی غذائیں، بیکری کی اشیاء کے استعمال سے پرہیزکیاجائے۔ چہل قدمی اور ورزش کو معمول کاحصّہ بنالیں۔جب کہ نماز کی پابندی ازحدضروری ہے کہ یہ قدرتی طور پر فشارِخون نارمل کرتی ہے۔ڈیجیٹل ڈیوائسز کے استعمال سے حتی الامکان اجتناب برتیں۔ نشہ آور اشیاء کا استعمال موت کا پروانہ ہے۔ خاص طور پر جو نوجوان لڑکے ، لڑکیاں نشہ آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں، وہ عموماً خون کا دباؤ بڑھنے کے باعث دماغ کی رگ پھٹنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

موٹاپا کم کرنے کے لیے ادھر اُدھر کے نادر مشوروں پر عمل کی بجائے، بہتر تو یہی ہے کہ طرزِ زندگی اور غذائی عادات میں تبدیلی کرلی جائے، تاکہ کسی بھی قسم کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔پھروزن کم کرنے کے لیے مریض کو ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے علاوہ اہلِ خانہ کے تعاون کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔اس ضمن میں ایسے دوست بنائے جائیں جو واک اور ورزش کرنے میں آپ کا ساتھ دیں۔سبز قہوے اور لیموں کا استعمال وزن کم کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اگر زیادہ سونے اور زیادہ کھانے کی عادات پر قابو پالیا جائے، تو خودبخود ہی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے۔

ذہنی تناؤ کے شکار وہ مریض جو علاج کے بعد اب ایک کام یاب خوش گوار زندگی بسر کررہے ہیں، اُن کے تجربات کے مطابق اپنے حال میں خوش رہنا سیکھیں، اللہ کے شُکر گزار بنیں،جہاں تک ممکن ہو، دوسروں میں آسانیاں تقسیم کریں،ہر کسی سےخوش مزاجی سے پیش آئیں کہ اس طرح کئی مسئلےباآسانی سلجھ جاتے ہیں۔حلال روزی میں برکت ہے،لہٰذا بے جا خواہشات کا تعاقب نہ کریں۔اسی طرح جو نوجوان نیند کی کمی اور بے چینی کا شکار ہیں، وہ سب سے پہلے تو کچھ عرصے کے لیےسوشل میڈیا کا استعمال ترک کر دیں۔ اس سے اعصابی تناؤ کم ہونے کے ساتھ نیند کی کمی کی شکایت بھی دُور ہو جائے گی۔

ان تمام رسک فیکٹرزکو سمجھنا اور ان سے بچاؤ کے طریقے اختیار کرنا امراضِ قلب کے امکانات کم کرنے میں بے حد مدد گار ثابت ہو تا ہے اور یہ بات گرہ سے باندھ لیں کہ امراض قلب کا شمار قابلِ انسداد(preventable)بیماریوں میں کیا جاتا ہے۔ یعنی احتیاطی تدابیر اختیار کرکےاور ان عوامل سے تحفّظ حاصل کرکےکوئی بھی فرد ’’ہارٹ ہیرو‘‘ بن سکتا ہے۔

(مضمون نگار،پاکستان ائیر فورس اسپتال، اسلام آباد میں بطوراسسٹنٹ پروفیسر، کارڈیالوجی خدمات انجام دے رہی ہیں، جب کہ پری وینٹیو کارڈیالوجی اور پریگنینسی اینڈ ہارٹ ڈیزیز انٹروینشنل کارڈیالوجی اُن کے خاص موضوعات ہیں)

تازہ ترین