• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے وقت جب عالمی لیڈراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ میں موجود ہیں، امریکی عوام اچھے ہمسایوں کا قومی دن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، امریکہ نے ستر کی دہائی میں یہ محسوس کیا تھا کہ عوام میں اچھے پڑوسی بننے کا شعور اجاگر کرنے کیلئے یہ دن متعارف کیا جائے، ستمبر 1978ء میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسے قومی سطح پر منانے کیلئے آئینی دستاویز پر دستخط کئے، اپریل2004ء میں امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے 26ستمبر کو نیشنل گڈ نیبر ڈے قرار دےدیا، اس دن امریکہ بھر میں قومی تعطیل ہوتی ہے تاکہ امریکی عوام یہ دن اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھرپور اندازمیں مناسکیں،اسی طرح امریکی حکومت نے سفارتی سطح پر اپنے پڑوسی ممالک سے قریبی تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنالیا، آج دیکھا جائے تو امریکہ کے اپنے ہمسایہ ممالک کینیڈا اور میکسیکو سے مثالی سفارتی تعلقات استوار ہیں۔دنیا کی طویل ترین بارڈر کے حامل امریکہ اور کینیڈا ایک دوسرے کے قریبی اتحادی ممالک ہیں جن کے مابین تجارتی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں، دونوں پڑوسی ممالک کے مابین 1988ء میں فری ٹریڈ معاہدے کے بعد دوطرفہ تجارت میں نہایت تیزی دیکھنے میں آئی۔انیسویں صدی میں میکسیکو اور امریکہ کے مابین ٹیکساس اور کیلیفورنیاسمیت دیگر ریاستوں کے معاملے پر خونی جنگیں لڑی گئیں، بعد ازاں دونوں ممالک نے اپنے دوطرفہ تنازعات باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کی ٹھانی، امریکہ اور میکسیکو نے 1970ء میں باؤنڈری ٹریٹی پر دستخط کرکے متعدد سرحدی تنازعات نمٹا لئے، نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوا ، آج میکسیکو کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ ہے تو امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر میکسیکو کو سمجھا جاتا ہے۔ عظیم امریکی رہنماء کی یہ تلقین عالمی امن کیلئے مشعل راہ ہے کہ دشمنی دشمن کو ختم کرکے نہیں بلکہ دوست بناکر ختم کی جاتی ہے۔دنیا کا ہر مذہب پڑوسیوں سے اچھے تعلقات اور احسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ نے جنگ بدر کے بعد دشمن قیدیوں کو مسلمان بچوں کو تعلیم دینے کے بدلے آزادی کی پیشکش کی، فتحِ مکہ کے بعد عام معافی کا اعلان کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دشمنی کا باب بند کردیا۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی سرحدیں چین، افغانستان، ایران اور انڈیا کے ساتھ لگتی ہیں۔ ہم نے ماضی میں اپنے پڑوسی چین کو جدید دنیا سے روشناس کرانے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا، اسی طرح ہمارا عظیم دوست ملک چین بھی مختلف عالمی فورمز پر پاکستان کاساتھ دیتا رہا ہے،رواں صدی کا سب سے بڑاترقیاتی منصوبہ سی پیک دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ایک کاوش ہے۔ ہمارا دوسرا پڑوسی ملک ایران وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کوایک آزاد اورخود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا، ماضی میں کچھ ناپسندیدہ عناصر کی وجہ سے پاکستان ایران تعلقات اتارچڑھاؤ کا شکار ضرور ہوئے لیکن ایران نے کشمیر کے مسئلے پر کھل کر پاکستان کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ایرانی پارلیمنٹ نے کشمیر یوں کے حق میں ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔ہمیں اپنے قومی مفاد میں کوشش کرنی چاہئے کہ امریکہ ایران کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے موثر کردار ادا کریں۔ افغانستان پاکستان کا وہ ہمسایہ ملک ہے جس نے روز اول سے پاکستان کیلئے مسائل پیداکئے ، کبھی ڈیورنڈ لائن کا تنازع کھڑا کیا گیا اور کبھی معصوم پاکستانی قبائل کو پختونستان کے نام پر گمراہ کیا گیا ، پاکستان میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے افغان عناصر سے ملتے ہیں ۔ سویت جارحیت کے بعد افغانستان پر کڑا وقت آیا تو افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا، آج بھی افغانستان کی بھارت سے تجارت براستہ پاکستان جاری ہے، یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ دونوںبرادر اسلامی پڑوسی ممالک کے مابین اعتماد کے فقدان کی وجہ کیا ہے ؟ آخر افغانستان اپنے غیر پڑوسی بھارت کو ہم پر کیوں ترجیح دیتا ہے ؟ پاکستان اور بھارت تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں لیکن کشمیر کے سرحدی تنازع کی بناء پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں اور ہتھیاروں کی دوڑ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ماضی کا امریکہ میکسیکوتصادم اس امر کا گواہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے مابین اختلافات کی بنیادی وجہ سرحدی تنازعات ہوتے ہیں لیکن سمجھدار ممالک دوطرفہ ڈائیلاگ کے ذریعے یہ اختلافات ختم کرلیتے ہیں اور اپنے عوام کی خوشحالی کیلئے باہمی تجارت پر فوکس کرتے ہیں ، ہمارے پڑوسی ملک چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہانگ کانگ اور مکاؤ کی پرامن واپسی ممکن بنائی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں کوئی ملک پڑوسی ممالک سے قریبی تعلقات استوار کئے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا،ہمیں حقیقت پسندانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے ان امور پر غور کرنا ہوگا جن کی بناء پر ہم کشمیر جیسے دیرینہ مسائل کے حل سے دور ہیں اور نت نئے عالمی تنازعات میں الجھتے جارہے ہیں،مقبوضہ کشمیریوں کو کرفیو کا سامنا کرتے پچاس روز سے زیادہ ہوگئے ہیں ،ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ ہمارے وہ نام نہاد دوست ممالک جن کی خاطر پاکستان نے اپنی ریاستی پالیسیاں بنائیں، وہ بھی آج نریندر مودی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ کشمیر کی حالیہ صورتحال نے واضح کردیا ہے کہ ضرورت کے وقت ایران اور چین جیسے قابلِ اعتماد پڑوسی ممالک نے ہی ہمارا ساتھ دیا ہے۔نیشنل گڈ نیبر ڈے کے موقع پر میرایہ پیغام ہے کہ خدارا تاریخ سے سیکھا جائے اور اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے پڑوسی ممالک سے تنازعات کسی تیسرے فریق کے بغیر دوطرفہ ڈائیلاگ کے ذریعے حل کئے جائیں، میری نظر میں پاکستان اور پڑوسی ممالک کے مابین آزادانہ تجارت اور عوامی سطح پر دوستانہ تعلقات دیرینہ تنازعات کے پرامن حل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین