’’سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق وزیراعظم پاکستان کے عزم پر عمل کیا گیا تو یہ پاک بھارت مذاکرات کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتا ہے‘‘۔ قائم مقام امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز نے اس رائے کا اظہار کرکے مودی حکومت کے لئے کشمیر اور دیگر پاک بھارت تنازعات پر مذاکرات سے فرار کی راہ اختیار کرنا یقیناً مشکل بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے اپنے زیرِ تسلط حصے کو دھاندلی سے ہڑپ کرنے کی جو کارروائی مودی حکومت نے آٹھ ہفتے قبل اپنی طاقت کے زعم میں کی تھی، اس نے اس معاملے کو ازسر نو اس طرح زندہ کر دیا ہے کہ بالعموم مصلحتوں کا شکار رہنے والی عالمی برادری کے لئے اب اسے مزید لیت و لعل کا ہدف بنائے رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی حالات میں اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے جبکہ اس کا نہایت بھرپور مظاہرہ جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ہوا جہاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کا معاملہ شرکا کی توجہ کا محور بنا رہا۔ ترکی اور چین نے واضح طور پر کشمیریوں کو حق خودارادی دیئے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا، ملائیشیا نے بھی تنازع حل کرنے پر زور دیا جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کا مقدمہ ایسے مدلل اور متاثر کن انداز میں پیش کیا جس نے اجلاس کے سامعین ہی کو نہیں پوری عالمی رائے عامہ کو صورتحال کی نزاکت اور بھارت کی ہٹ دھرمی کا احساس دلا دیا۔ محصور و مظلوم کشمیریوں کو بھی عمران خان کے خطاب سے بڑا حوصلہ ملا لیکن مودی حکومت نے پابندیاں مزید سخت کر کے اپنی اخلاقی و سیاسی شکست کا خود اعلان کرنے کا اہتمام کیا؛ تاہم یہ امر واضح ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے کشمیریوں کی تحریک کو اب دبایا نہیں جا سکتا۔ وزیراعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے مکمل خاتمے اور اس کی صداقت کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کے متعلقہ ذمہ داروں کا استقبال کرنے کا اعلان کرکے مودی حکومت کے اس غبارے سے ہوا بالکل نکال دی ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات ممکن نہیں۔ عمران خان کے خطاب کے اسی حصے کا حوالہ دیتے ہوئے قائم مقام امریکی وزیر خارجہ نے اپنی نیوز بریفنگ میں کہا ہے کہ پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہوں کو روکنے سے متعلق جو اہم وعدے کیے ہیں اگر ان پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے تو یہ مذاکرات کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتے ہیں جبکہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کا موقف یہ تھا کہ پاکستان میں اب کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی ٹھکانا موجود نہیں جس کی تصدیق اقوام متحدہ اپنے نمائندوں کے ذریعے کرا سکتی ہے، لہٰذا ایلس ویلز کی جانب سے عمران خان کے وعدوں اور ان کی تکمیل کی بات پاکستان کے اصل موقف سے متصادم ہے۔ ایلس ویلز نے اپنے بیان میں مودی حکومت کو جو نصیحت کی ہے وہ کشمیری قیادت کی رہائی، عوام پر لگی پابندیوں کے خاتمے اور ریاست میں انتخابات کرانے تک محدود ہے حالانکہ تنازع کشمیر کے حل کے لئے آج اصل ضرورت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود اختیاری دیتے ہوئے عالمی ادارے کی نگرانی میں استصواب رائے کرانا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور پوری عالمی برادری کو اس کے لئے بھارت پر اسی طرح دباؤ ڈالنا ہوگا جیسے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو ان کا حق دلانے کیلئے ڈالا گیا تھا۔ مودی حکومت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا بھی دیا جائے اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے لئے عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری نہ کرے تب بھی یہ مشق لاحاصل رہے گی اور کشمیر جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں کے درمیان کسی بھی وقت بھڑک اٹھنے کے امکان کا حامل آتش فشاں بنا رہے گا۔