لندن: مارٹن سینڈبو
جب فیس بک نے ایک لبرا نامی نجی ڈیجیٹل ادائیگی ٹوکن کے لئے اپنے منصوبے کا اعلان کیا،اس کا ارادہ سختی سے حکومتوں کو متبادل عوامی الیکٹرانک کرنسی بنانے کیلئے حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
تاہم، گزشتہ مرکزی بینک کے تحقیقی مقالے تک محدود تکنیکی بحث میں فوری سیاسی ضرورت داخل کرنے سے وہی ہوسکتا تھا جو اس نے حاصل کیا ہے۔فرانسیسی وزیرخارجہ برونو لی مائر آئندہ ماہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں میں حکومتوں کی ای کیش یا الیکٹرانک کرنسیوں کے جاری کرنے کی ضرورت پر عام بحث کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔
برونو لی مائر لبرا کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔رواں ماہ کے آغاز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں یورپی یونین میں لبرا کی تشکیل سے انکار کرنا چاہئے، اور ڈیجیٹل کرنسیوں کیلئے مشترکہ یورپی فریم ورک کا مطالبہ کیا۔
بینک آف انگلینڈ کے گورنرمارک کارنی کی جانب سے ایک اور سیاسی محرک آیا، جنہوں نے اگست میں ایک خطاب کے دوران کسی نجئ فراہم کنندہ جیسے فیس بک کی بجائے مرکزی ڈیجیٹل کرنسیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے فراہم کردہ مصنوعی کرنسی کی تجویز دی،جو بین الاقوامی لین دین میں بتدریج امریکی ڈالر کی جگہ غلبہ لے سکتی ہیں۔
اب یہ مسئلہ کیوں ہے؟
لبرا کے اعلان نے پالیسی سازوں اور ریگیولیٹرز کو حئران کردیا۔بڑی معیشتوں کے جی 7 گروپ نے فوری طور پر لبرا اور دیگر نام نہاد ’’اسٹیبل کوائنز‘‘ پر یورپی مرکزی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ بنوٹ کور کی زیر سربراہی ایک ورکنگ گروپ قائم کیا ۔
اس میں شامل ایک عہدیدار کے مطابق جولائی میں جی 7 کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں لبرا کے خطرات پر طویل اور نتیجہ خیز بات چیت ہوئی۔عہدیدار نے مزید کہا کہ وزراء کی مشترکہ سوچ ہے کہ انہیں اس مسئلے پر ضبط کرنے اور عوامی سطح پر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں بینٹ کور نے ایک تقریر میں لبرا کی طرف سے درپیش ’’زبردست چیلنجز‘‘ اور اسی طرح نجی اقدامات کے بارے میں متنبہ کیا تھا، جس میں حفاظت اور رازداری،مالی استحکام اور مرکزی بینکوں کی مانیٹری پالیسی پر عمل کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مرکزی بینکاروں کے لئے ایک ’’ویک اپ کال‘‘ تھی۔
یہ اعتراف کہ لبرا کامیاب ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے صارف کی ضرورت پوری ہوتی ہے اس نے پالیسی سازوں کو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بارے میں سختی سے سوچنے پر مجبور کردیا۔
برونو لی مائر اور مارک کورنی نے لبرا کی سب سے زیادہ امید افزا فعالیتوں میں سے ایک کراس کرنسی کے سستے اور تیزی سے منتقلی کو آسان بنانئ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مرکزی بینک کیا سوچتے ہیں؟
کئی جواز کے ساتھ،وہ سیاستدانوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ نےاتنا طویل عرصہ کیوں لیا؟
سیاستدانوں کو جھنجھوڑنے سے کہیں پہلے مرکزی بینکس کئی سال سے مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسیوں کی تحقیقات کررہے تھے۔ ان کیلئے یہ پریشانی رہی ہے کہ جب مالیاتی نظام زیادہ ڈیجیٹل ہوجاتا ہے تو مرکزی بینک اپنے کام کیسے انجام دیتے ہیں۔
اس شعبہ کا ایک علمبردارسویڈن کا رککس بینک ’’ای کرونا‘‘ کا نمونہ تیار کرنے والا ہے۔اس نے اس نظریے کو فروغ دیا کیونکہ سویڈن میں مادی نقد رقم کا استعمال میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔
زیداہ تر مرکزی بینک زیادہ محتاط ہیں۔یوروزون ،جو خاص طور پر بچت کرنے والوں اور قرض دہندگان کے مابین مالی ترسیل کے لئے بینکوں پر انحصار کرتے ہیں،کیلئے ایک اہم تشویش یہ ہے کہ مرکزی بینک سے جاری کرنسی بینکاری کے شعبے کو متاثر کرے گی۔
مرکزی بینک کے ایک فکرمند گورنر نے کہا کہ ایک ایسے بحران میں جہاں عوام بینکوں کی حالت زار کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں،مرکزی بینک کے کھاتوں تک رسائی ایک بینک کو زیادہ سے زیادہ چلانے کا امکان بناسکتی ہے۔
بینک آف جاپان کے نائب گورنر ماسوشی امامیہ نے اس موسم گرما میں ایک خطاب میں کہا کہ بینک آف جاپان کا ڈیجیٹل کرنسی جاری کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے تاہم وہ اس بارے میں مزید جاننے کے لئے اس معاملے کے بارے میں تحقیق کررہی ہے۔
یہ مؤقف مرکزی بینکوں کی پوزیشن زیادہ وسیع پیمانے پر ظاہر کرتا ہے۔باسل میں بین الاقوامی تصفیوں کے بینک کے جنوری میں کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 63 مرکزی بینکوں میں 70 فیصد نظریاتی تحقیق میں مصروف تھے کہ ڈیجیٹل کرنسی کیسے کام کرے گی۔
ان میں سے نصف مزید تصورات کے بارے میں مزید تحقیقات میں جاچکے تھے اور کچھ نمونوں کے ٹرائلز میں مصروف تھے۔
کیا یہ سب نظریاتی ہے؟
بالکل بھی نہیں۔ جبکہ بی آئی ایس سروے میں محض چند مرکزی بینکوں کے خیال میں آئندہ چھ برس میں ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروانے کے لئے بہت یا کسی حد تک امکان تھا،ایک تہائی نے جواب یدا کہ یہ کم از کم ممکن ہے۔
یوراگوئے نے ایک پائلٹ ای پیسو پروجیکٹ انجام کو پہنچایا ہے،اور پیپلز بینک آف چائنا کے ایک ڈائریکٹر نے جولائی میں کہا تھا کہ وہ ایک خودمختار الیکٹرانک کرنسی جاری کرنے کیلئے تقریبا تیار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کے زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے سے اس عمل میں تیزی لائے جانے کا امکان ہے،خاص طور پر اگر رککس بینک جہسی ترقی یافتہ معیشت کا کوئی مرکزی بینک کامیاب آزمائش کا انعقاد کرتا ہے۔
صارفین کیلئے اس کی اہمیت کیا ہوگی؟
نقص سے پاک ڈیزائن پر منحصر ہے، یہ شاید اس سے بہت زیادہ مختلف نہ ہو جیسا کہ آج کل لوگ الیکٹرانک ادائیگیوں اور رقم کی منتقلی کرتے ہیں۔
مرکزی بینکر جو مسٹر کوری اور رکس بینک سمیت اس موضوع میں زیادہ قریب سے شامل ہیں،ادائیگی کے حل کی تیاری میں نجی شعبے کے کردار پر زور دینے کیلئے سخت پریشانی کا شکار ہیں۔
جو تصویر ابھر رہی ہے وہ یہ ہے کہ جس میں نجی اداروں کو اکاؤنٹس یا ’’والٹ‘‘ ایپلیکشنز کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی کا لائسنس جاری کیا جائے جسے مرکزی بینک کے ریزرو کی مکمل حمایت حاصل ہے،جو پہلے ہی الیکٹرانک ہیں۔
بینک آف انگلینڈ کے نان بینک فنٹیک کمپنیوں کو اس کے ذخائر تک رسائی فراہم کرنے کے حالیہ فیصلے کا مقصد اس نوعیت کے نظام کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔صارفین کو یہ کافی حد تک الیکٹرانک ادائیگی اور منتقلی کے حل کی طرح ہی لگے گا جو اس وقت پہلے ہی ان کی بینکنگ ایپلیکشنز یا پے پال جیسی خدمات کے طور پر دستیاب ہیں۔فرق یہ ہوگا کہ غیرمادی رقم کی حفاظت اورقابل اعتماد رقم کی منتقلی دونوں مکمل طور پر خودمختار پیسہ فراہم کرنے والے یعنی مرکزی بینک کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔