• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معرکہ کھہڑا شریف ’کلمہ حق بلند کرنے والوں کوبے گناہ شہید کیا گیا‘

شیخ المشائخ مخدوم عبدالرحمٰن شہید کا شمار سندھ کے اولیائے کبار میں ہوتاہے۔ وہ سندھ کے قلعہ خیر پور میرس کی تحصیل گمبٹ کے کھہڑا شریف شہر کے مخدوم خاندان کےجید بزرگوں میں سے تھے۔ اس خاندان کا سلسلۂ نسب آںحضرتؐ کے چچا حضرت عباس ؓسے جا کر ملتا ہے۔ اسی خاندان کے محدث اعلیٰ حضرت محمد ابراہیم تیسری صدی ہجری کے اوائل میں عباسی خاندان کے دور خلافت میں دین اسلام کی تبلیغ کی غرض سے سندھ تشریف لائے۔ سندھ کا خطہ اس دورمیں دولت عباسیہ سے وابستہ تھا۔ 

حضرت محمد ابراہیم نے نیرون کوٹ (حیدرآباد ) کے شمال میں کلور، نامی ایک ٹیلے پر سکونت اختیار کی اور دین کی تبلیغ کا آغاز کر دیا ،ہندوؤں کو یہ بات ناگوار گزری اور 248ء میں انہیں شہید کردیا گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بزرگ سید اسد اللہ گزرے ہیں، جو مخدوم الملک کے لقب سے معروف تھے۔ جب مغل بادشیاہ ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد عمر کوٹ میں پناہ لی تو وہ مخدوم اسد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے اپنی کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کی ۔

انہوں نے کی دعا فرمائی جس کی برکت سے ہمایوں کو اسی ماہ ہندوستان کا اقتدار واپس مل گیا۔دوبارہ حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد ہمایوں مخدوم اسداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سندھ کے قاضی کا منصب سنبھالنے کی درخواست کی۔انہوں نے ہمایوں کی عرض داشت قبول کر لی اور ساری عمر سندھ کے قاضی القضاۃکے عہدے پر فائز رہ کر حق و انصاف کا بول بالا کرتے رہے۔انہوں نے 966 ھ میں وفات پائی۔ ان کا مزار گمبٹ کے قریب گاؤں پپری کے مقام پر مرجع خاص و عام ہے۔

مخدوم اسد اللہ کے بڑے صاحبزادے مخدوم جمال الدین نے پپری میں ہی سکونت اختیار کی۔ مخدوم جمال الدین کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مخدوم یحییٰ بھی وہیں مقیم رہے۔ ان تینوں بزرگوں کے مزارات پپری میں واقع ہیں۔ حضرت مخدوم یحییٰ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے مخدوم عبدالخالق نے پپری سے ہجرت کی اورقریبی شہر کھہڑا شریف میںرہائش اختیار کر لی۔

ان کا خاندان آج بھی اسی شہرمیں آباد ہے۔ ان کے صاحبزادے مخدوم محمد عاقل بھی ایک ولیٔ کامل اور بزرگ تھے۔مخدوم عبدالرحمٰن شہید انہی مخدوم عاقل کے پوتے تھے۔ وہ ایک عالم با عمل اور عارف کامل تھے۔انہوں نے ظاہری و باطنی علوم و معارف اپنے والد گرامی مخدوم محمد سے حاصل کئے۔ان کی ساری زندگی دین اسلام کی دعوت و تبلیغ اور شرک و بدعات اور رسوم باطلہ کی بیخ کنی میں گزری۔

مخدوم عبدالرحمٰن شہید حق گوئی کیلئے مشہور تھے اور بڑے سے بڑے جابر و ظالم حکمران کے سامنے کلمہ ٔ حق بلند کرنے سے نہ کتراتے تھے۔ ایک مرتبہ میاں نور محمد خان کلہوڑو نے تمام جاگیر وںکے پروانے منسوخ کر دیئےجن میں میر یعقوب علی شاہ، بھی شامل تھے جو مخدوم عبدالرحمن کے مخصوص ارادت مندوں میں شامل تھے۔میر یعقوب علی شاہ اپنے خاندان کے دوسرے اعزاء کےہمراہ مخدوم عبدالرحمٰن کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کی کہ میاں نور محمد کلہوڑو کے دربار میں جا کر ان کی جاگیر کے پروانے بحال کرا دیں۔ 

مخدوم صاحب نے عذر پیش کیا کہ میاں نور محمد خان کلہوڑو بے نور ہے، لہٰذا اس کے پاس جانے کیلئے اصرار نہ کریں۔ مگر انہوں نے جب بہت اصرار کیا تو آپ جانے پر آمادہ ہوئے ۔یہ اطلاع میاں نور محمد کلہوڑو تک پہنچی تو اس کو فکر لاحق ہو گئی۔ میاں نور محمد حان کلہوڑو بزرگوں کے احترام میں اٹھنا اور ان سے مصافحہ کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ مخدوم عبدالرحمٰن کے مقام و مرتبے سے باخبر تھا۔ 

اسے یہ بھی معلوم تھا کہ مخدوم صاحب کے عقیدت مند سندھ کے علاوہ برصغیر کے دوسرے علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ دہلی کا بادشاہ بھی ان کے ارادت مندوں میں شامل ہے۔ مگر وہ یہ بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ وہ مخدوم عبدالرحمٰن کیلئے کھڑا ہو اور انہیں تعظیم وتکریم دے۔ اس نے وزیروں، مشیروں سے مشوروں کےبعد یہ طے کیا کہ حضرت مخدوم کی آمد کے موقع پر وہ تو پ خانے کے معائنہ کے بہانےدربار سے چلا جائے اورمخدوم صاحب کے واپس جانے کے بعد دربار میں آئے۔ 

جب مخدوم عبدالرحمن ، میاںنورمحمد کلہوڑو کے دربار میں پہنچے تو وہ دربار میں موجود نہیں تھا۔ مخدوم صاحب نے مسند خالی دیکھ کر اس پر جائے نماز بچھا کر نفل نماز شروع کر دی۔میاں نور محمد کلہوڑو کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ وہ پیچھے سے آکر مسند کے قریب بیٹھ گیا۔مخدوم صاحب جب نماز سے فارغ ہوئے تو میاں نور محمد کلہوڑو نے آپ کوخوش آمدید کہا۔ مخدوم صاحب نے میاں نور محمد کلہوڑو سے مخاطب ہو کرکہا کہ سنا ہے کہ آپ کے پاس کتے بہت اچھی نسل کے ہیں۔ وہ سمجھا کہ شاید مخدوم صاحب کو شکار کا شوق ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے نوکروں کو مختلف النسل کے کتے حاضر کرنےکا حکم دیا۔ 

مخدوم صاحب نے کہا کہ ہمیںکتوں کی کوئی ضرورت نہیں ، مگر ایک حدیث یاد آئی ہے کہ جس میں آنحضرت ؐنے فرمایا ہے کہ ’’جو آدمی صدقہ یا خیرات دے کر واپس لیتا ہے اس کی مثال اس کتے جیسی ہے، جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ‘‘، ’’،اور لگتاہے کہ آپ کے پاس کتے زیادہ ہیں اوریہ عادت آپ نے کتوں سے سیکھی ہے کہ پہلے حاکموں نے شریف خاندانوں اور بزرگوں کو خیرات کے طور پر جو جاگیر یں عنایت کی تھیں، تم نے وہ واپس لے لی ہیں‘‘۔ 

میاں نور محمد کلہوڑو، مخدوم صاحب کی یہ جرأت و حق گوئی دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اپنے منشی کو حکم دیا کہ مخدوم صاحب کی مرضی کے مطابق سب کو پروانے جاری کر دو۔ بظاہر تو میاں نور محمد کلہوڑو ان سے بہت احترام سے پیش آیا، مگر اندر سے وہ مخدوم صاحب کے خلاف ہو گیا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدابیر پر غور و خوض کرنے لگا۔

کھہڑا شریف کےقریب سادات کرام کا ایک چھوٹا سا گائوں ’’سانڈی‘‘ تھا جوکہ اب بھی موجود ہے۔ سیدوں کا ایک نوجوان وہاں کے منگنھار کی بیوی کو بری نیت رکھتا تھا اور اس سے دست درازی کی کوشش کرتا تھا۔۔ غریب منگنھار ،مخدوم عبدالرحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ 

مخدوم صاحب نے اس نوجوان کے بزرگوں سے اس بات کی شکایت کی۔ انہوں نے اس کو بہت سمجھایا مگر وہ کسی طرح بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ بالآخر مخدوم صاحب نے منگنھار اور اس کی بیوی کو اپنے ایک خادم کےہمراہ روہڑی کےکاردار معین ڈیتھر کے پاس بھیج دیا۔ جب اس نوجوان کو خبرملی تو وہ اپنے غنڈوں کےساتھ قافلے پر حملہ آور ہوا اور منگنھار کی بیوی کو زبردستی لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔ دونوں جانب سے مقابلہ ہوا اور دونوں فریقین کے کچھ لوگ زخمی ہوگئے۔ 

مخدوم صاحب کے خادم زیرک کے ہاتھوں حملہ آوروں کےایک نوجوان واصل شاہ کوشدید چوٹ آئی۔ روہڑی کے کار دار تک جب یہ ساری خبر پہنچی تو اس نے مخدوم صاحب کےخلاف فساد، خونریزی اور ظلم و زبردستی کے الزامات پر مبنی رپورٹ تیار کر کے میاں نور محمد کلہوڑو کو بھیج دی ۔ کار دار یہ جانتا تھا کہ میاں نور محمد کلہوڑو اندرونی طور پر مخدوم صاحب کا سخت مخالف ہے اور انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے موقع کی تلاش میں ہے۔ 

میاں نور محمد کلہوڑو کو موقع مل گیا اوراس نے فوراً ایک لشکر مخدوم عبد الرحمٰن اور ان کے خاندان کو قتل کرنے کی غرض سے بھیجا۔ مذکورہ لشکر جس کی قیادت دائود نامی قصائی، (جو کہ سیہون شریف) کےہنود قصائی کی اولاد میں سے تھا ، کر رہا تھا ، کھہڑا شریف پہنچا۔ کھہڑا شریف میں ہزاروں مریدین اور عقیدت مند مخدوم عبدالرحمٰن کی خدمت میں حاضر ہو کردشمن سے مقابلے کے لیے تیار تھے، مگر مخدوم عبدالرحمٰن نےانہیں جنگ کرنےکی اجازت نہ دی ۔ 

مخدوم عبدالرحمٰن کے ساتھ صرف 223؍افراد تھے ، جن میں علمائے کرام اور حفاظ شامل تھے، یہ سب افراد مسجد میں مقیم تھے۔ جب ظہر کا وقت ہوا تو مخدوم صاحب نے سب کو ہدایت کی کہ نماز سے فارغ ہو کر سب قبلہ رو ہوکر مراقبہ میں بیٹھ جائیں اور جب سروں پر تلوار چلےتو صبر اورشکر کے ساتھ زبان سے کوئی لفظ نکالے بغیر برداشت کرنا ۔

اس کے بعد مخدوم عبدالرحمن اپنی حویلی میں گئےاوراپنے دونوں صاحبزادوں مخدوم محمدی اورمخدوم احمدی کو سینے سے لگایا اور ان کے لئے خیر و برکت کی دعا کی۔ اس وقت مخدوم محمدی کی عمر دوسال اور مخدوم احمدی کی عمر ایک سال کی تھی۔ آپ نے اپنے اہل خانہ کو صبر اور رضائے الہٰی پر شاکر رہنےکی تلقین کی۔ 

اس کے بعد آپ مسجد کے دروازے پر قبلہ رو بیٹھ کر تازہ وضو بنانے لگے، اتنے میں کلہوڑوں کا لشکر آپہنچا اور مخدوم عبد الرحمٰن پر حملہ آور ہوا ۔ ایک شقی القلب کے وار سے ان کا سرمبارک دھڑ سےالگ ہو گیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ ’’بسم اللہ و رضینا بقضاء اللہ‘‘ (بسم اللہ ہم اس کی قضا پر راضی ہیں) ۔مخدوم عبد الرحمٰن کو شہید کرنےکے بعد سپاہی اندرون مسجد داخل ہوئے اور وہاں موجود لوگوں کو مراقبہ کی حالت میں شہید کر دیا۔ 

شہید ہونے والوں میں مخدوم عبد الرحمٰن کے چھوٹے بھائی مخدوم محمد عاقل بھی تھے۔ ان شہد ا کی لاشیں تین دن تک بے گورو کفن مسجد میں پڑی رہیں۔ کھہڑا شریف میں کسی شخص کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ شہدا کی تکفین و تدفین کرتا۔ اس واقعے کے چوتھے روز آنحضرت ؐ نے خواب میں آکر گھوٹکی کے بزرگ پیر سید موسیٰ شاہ جیلانی ، جو کہ مخدوم صاحب کے خاص احباب میں سے تھے، کو اشارہ دیا کہ وہ کھہڑا شریف جا کر شہدا کی لاشوں کی تکفین و تدفین کافریضہ انجام دیں۔ 

کلہوڑا فوج کے سپاہیوں نے مسجد میں مخدوم صاحب اور ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد ان کے گھر کا رخ کیا۔ ایسے میں لکیاری سادات میں سے سید پیرو شاہ لکیاری اپنے صاحبزادوں سمیت حویلی کی حفاظت کے لیے آگئے اور حملہ آوروںسے کہا کہ جب تک ان کے جسم میں جان باقی ہے وہ اس گھر کے مکینوں کی حفاظت کریں گے ۔ بعد ازاں حضرت مخدوم محمدی کو شہر کے ایک معزز شخص ،میاں ٹھارو خان سہتونےاپنے گھر میں چھپا لیا اور دوسرے صاحبزادے مخدوم احمدی کو ایک عورت، کپڑوں میں چھپا کر اپنے گھر لے گئی۔ 

ابھی وہ راستے ہی میں تھی کہ ظالموں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ مخدوم عبد الرحمٰن کے بیٹے کو ان کے حوالے کردے، اس بہادر اور نیک دل خاتون نے اپنی بچی ان کے سامنے کر دی اور کہا کہ یہ مخدوم صاحب کا بیٹا ہے۔یہ سن کر ظالموں نے معصوم بچی کو قتل کر دیا۔ اس طرح وہ بہادر خاتون اپنی بچی کی قربانی دے کر مخدوم صاحب کے بچے کو بچا کر اپنے گھر لے گئی۔ ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ مخدوم شہید کے خلفا اور متعلقین کے گھروں پر بھی ہلہ بول دیا اور گھروں کا سارا سازو سامان لوٹ کر لے گئے۔

تازہ ترین