• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’چیلنج‘‘ (شائع شدہ 18ستمبر 2019) میں ’’نواز شریف بنام کلثوم نواز‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں ہمارا نقطہ نظر یہ تھا اور یہی ہے کہ ’’پاکستان کی تاریخ کی داستان محض ایک قومی رہنما کے احساسات کے خط کے محض ایک پہلو تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے‘‘، ہم اس گفتگو کو اپنے اس نظریے کی روشنی میں آگے بڑھاتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت عوامی نقطہ نظر سے اخلاقی بحران کا شکار ہے، اس کا ایک سال مکمل ہو جانے کے بعد بھی معیشت، مہنگائی اور عوامی عزت کا کوئی ایک رتی بھر امیج بہتر نہیں ہوسکا۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور عوامی عزت پنجاب پولیس کی اکثریت کی گالیوں اور سرعام ٹھڈوں سے حصول پاکستان کے تاریخی مقاصد سے آشنا ہو رہی ہے، وزیراعظم کی ذہنی غیر ذمہ داری کا عالم یہ ہے کہ وہ سرعام فرماتے ہیں ’’معیشت کے بارے میں مجھ سے پانچ برس بعد پوچھا جائے‘‘،

سیدھی سی بات، خان صاحب! پاکستان کی تاریخ تو لمحوں میں صدیاں برباد کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی، آپ کن خوابوں کی شہزادگی انجوائے کرنے کے اشارے دے رہے ہیں؟ ’’نواز شریف کے خط بنام کلثوم نواز‘‘ کو ہم نے پاکستان کی تاریخ کی روشنی میں اسی لئے غور کرنے کے لئے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ایک قومی رہنما اپنی بیوی کی سنتالیس برس کی رفاقت کو بستر مرگ پر چھوڑ کے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑے، اس دھرتی پر وارد ہوا تاکہ وہ اپنی ذات کے دکھ کے باعث تاریخ کے سامنے شرمندگی کا سامنا نہ کرنے پڑے چنانچہ کلثوم نواز کا خط ہمیں کسی پاکستانی تاریخ کی جانب متوجہ کرتا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے 12مارچ 2013کو پاکستان مسلم لیگ ’ن‘ کے رہبر نے برسراقتدار آنے کی شکل میں اپنے متوقع منشور کا اعلان اپنی جماعت کے میڈیل سیل (ماڈل ٹائون) میں بلائی گئی ایک پُر ہجوم پریس بریفنگ میں کر دیا تھا، اس منشور میں پاکستان مسلم لیگ ’ن‘ کے رہبر میاں محمد نواز شریف نے Truth and Reconcilation Commissionکے قیام کا مطالبہ کیا تھا، مگر یہ مقدر کے کھیل ہیں میاں صاحب اور ان کی جماعت کا مجوزہ کمیشن معرض وجود میں ہی نہ آ سکا، ورنہ اس وقت یہاں تک باتیں شروع ہو گئی تھیں کہ اس حوالے سے (1980سے لے کر 2012تک بتیس برس بنتے ہیں)

ان بتیس برسوں میں مرتضیٰ بھٹو کا قتل، اس پولیس آفیسر کی موت جسے مرتضیٰ کو مارنے کے بعد اگلی رات ہی اس کے گھر میں ہلاک کر دیا گیا تھا، ضیاء الحق طیارے کا حادثہ، اسامہ بن لادن کی طرف سے بے نظیر بھٹو شہید کی منتخب حکومت کو الٹانے کے لئے پیسے کی فراہمی کا واقعہ، قید کے دوران آصف علی زرداری پر تشدد، زبان کاٹنے کی درندگی، نومبر 1996گورنر ہائوس لاہور میں آصف علی زرداری پر وحشیانہ تشدد، نواب اکبر بگٹی کا قتل، سابق چیئرمین احتساب کمیشن کی سربراہی میں آصف علی زرداری اور بی بی شہید پر بنائے گئے مقدمات سینئر بیورو کریٹ سلمان فاروقی کی اہلیہ نفیسہ فاروقی اور بیٹی شرمیلا فاروقی کے معاملے میں سیف الرحمٰن کا ناقابل برداشت حد تک توہین آمیز رویہ، 1988سے 1999تک منتخب جمہوری حکومتوں کی برطرفیاں، اصل حقائق، اصل کرداروں کا تعین، اصغر خان کی رٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ، کمیشن اس پر بھی اپنا تاریخی Verdictریکارڈ پر لائے،

چار غیر آئینی اور غاصب فوجی حکمرانوں کے افعال، ان کے حکام کا تعین، کہاں تک سنائوں کہاں تک سنو گے، بلاترتیب 1980سے 2012تک بتیس برسوں کے یہ چند دکھ میں نے بیان کئے ہیں جنہیں اپنے وطن پہ اپنی قبروں کا انتظار ہے، وہ یہ دنیا چھوڑنے سے پہلے نیک (بد)بخت، مخلص جنونی، آپے سے باہر طاقتور نقاب پوشوں کے انسان دشمن چہروں سے ماسک ہٹا ہوا دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔

تاریخ میں سو فیصد کبھی بھی ایسا نہیں ہوا صرف نیلسن منڈیلا کمیشن نے 90فیصد گہنگاروں کو پہلے ننگا کیا پھر معاف کر دیا۔ آپ بے شک ان بتیس برسوں تک ہی محدود رہتے، صرف 40فیصد سچائی ہی سامنے آ جاتی تب بھی نواز شریف کی سیاسی عظمت گہنا ہی نہیں سکتی تھی مگر ہماری قسمت؟

نواز شریف خود اپنے پورے خاندان سمیت کردہ اور ناکردہ سوالوں کا جواب دینے میں مصروف ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی شکل میں خوف زدہ کی جا رہی ہے۔

تازہ ترین مہمان کا نام خورشید شاہ، خواجہ آصف کا پارلیمنٹ میں چیخنا پکارنا واجب اور جائز مگر انسانی تاریخ طاقتور کے حق میں فیصلہ سناتی آ رہی ہے ورنہ بی بی فریال تالپور کی یہ وارننگ ہی کافی ہے کہ سیاسی انتقام کی راہیں ترک کر دی جائیں۔

آصف علی زرداری کی طویل قید و بند ہی اس قربانی کے لئے کافی تھی کہ ملک کو آئین کی بالادستی ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کی کشتی میں رہنے دو، ان شاء اللہ یہ کشتی پاکستان کو ہمیشہ ساحل مراد پر لگاتی رہے گی مگر ہماری قسمت کہاں ایسی؟ اب تو عارف نظامی صاحب جیسے باوقار اور ذمہ دار کالم نگاروں کی تحریروں میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ صمصام بخاری کو صوبائی وزیر اطلاعات بنایا اور پھر ہٹا دیا گیا۔

فیاض الحسن چوہان کو ان کے نامناسب ریمارکس پر ہٹایا گیا تھا، جہاں تک شہباز گل کا تعلق ہے ان کی پنجاب کے ایک سابق ڈی جی پی آر سے اس حد تک تلخ کلامی ہوئی کہ نوبت قریباً ہاتھا پائی تک پہنچ گئی تھی، عون چوہدری کی رخصتی کے حوالے سے کہانیاں اپنی جگہ اور امریکہ میں دورے کی تمام ابہام کے حقیقی نتائج عملی المیے کے نتیجے میں سامنے آئیں گے، ترقی کے منتظر رہیں۔

لگتا یوں ہے عمران خان کی حکومت ملک کو معیشت، سیاست اور سماجی عزت کے معاملے میں ’’قانونی دہشت گردی کے آگے بطور چارہ ڈال چکی، جس کو اللہ بچائے گا وہ بچ جائے گا ورنہ اب تو معصوم کلرک کی بادشاہی سے شروع ہو کر اعلیٰ ترین افسر کی مرضی تک جا چکی ہے۔

ہمارے خیال میں تو کسی طور ایک"Ecommic Judicial Commission" بننا چاہئے جو لوگوں کو بتائے کہ یہ حکمران چاہتے کیا ہیں اور جو چاہتے ہیں اس کا قانونی جواز اور راستہ کیا ہے؟

تازہ ترین