• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ ولی اللہ

بھارت کی ریاست حیدرآباد دکن کا پاکستان سے جذباتی تاریخی مذہبی اور روحانی تعلق رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران ریاست حیدرآباد کے حکمراں نظام خاندان نے مسلمانوں کی حمایت کی اورقیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی اپیل پر نوزائیدہ مملکت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لیے بھرپورمالی امداد فراہم کی تھی ۔

یہاں کے چٹخارے دار اچار، کھٹی میٹھی چٹنیاں اور فرائیڈ اسنیکس پسند کیے جاتے ہیں

قیام پاکستان کے بعد بھارتی ریاست حیدرآباد دکن سے ہجرت کرکے آنے والوں نے کراچی کا رخ کیا اور 1897 میں برطانوی راج کے دوران تعمیر کراچی سینٹرل جیل کے اطراف کے علاقے کا انتخاب کیا اور یہاں حیدرآباد کالونی کے نام سے ایک بستی آباد کی، قیام پاکستان سے پہلے سینٹرل جیل کے اطراف اور حیدرآباد کالونی کے مقام تک جنگل ہوا کرتا تھا اور یہاں لوگ تیتروں کا شکار کرنے آیا کرتے تھے، تاہم یہ علاقہ اب شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے تین سو پچاس گھرانوں پر مشتمل حیدرآباد کالونی کے قیام میں مسلم لیگی رہنما نواب بہادر یار جنگ سے موسوم ادارے بہادر یار جنگ اکادمی نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔

بہادر یار جنگ اسکول کا شمار بھی شہر کے اہم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، اس اسکول میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر جمیل الدین جالبی بحیثیت پرنسپل اور پروفیسر شرف الدین وائس پرنسپل خدمات انجام دے چکے ہیں۔بہادر یار جنگ اسکول سے فارغ التحصیل طلبا مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں یوں تو دیکھا جائے تو حیدرآباد دکن کراچی سے کوسوں میل دور ہے لیکن حیدر آباد کالونی نے وہاں کی روایات کوآج بھی دل سے لگا رکھا ہے، یہاں کی گلیوں کے نام اچار گلی ، آم گلی،کھٹی گلی ،میٹھی گلی کے نام سے مشہور ہیں، حیدرآبادی کھانوں اور خاص کر وہاں کے مشہور اچار کا ذائقہ چکھنے کے لئے لوگ آج بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں، یہاں ہر قسم کے اچار، چٹنیاں مختلف قسم کے پاپڑ اور حیدرآبادی تیار مسالہ جات دستیاب ہیں ۔

علاقے کی سب سےقدیم دکان چٹخارے ہاؤس کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ دکان1966 کھولی گئی تھی ۔اس علاقے کے چٹخارے دار اچار کھٹی میٹھی چٹنیاں اور فرائیڈ اسنیکس پسند کیے جاتے ہیں،یہاں چار کی بہت ساری قسمیں بھی دیکھنے اور کھانے کو ملتی ہیں مثلاً آم لیموں املی مرچ لہسن، لسوڑا، پانی اور سرکہ والا اچار سبزی گاجر گوشت جھینگا، مرغ، ادرک، کریلا، ٹیڈ، امباڑا اور مکس اچار اور خصوصا رشتہ اچار جو باقی اچاروں کے مقابلے میں نسبتاً مہنگا ملتا ہے اسی طرح چٹنیوں کی بھی یہاں کئی قسمیں موجود ہیں۔ 

جیسے ،چلی گارلیک، آلو بخارا چٹنی، نورتن چٹنی، تل کی چٹنی، ناریل کی چٹنی، پودینے کی چٹنی، کٹھی میٹھی چٹنی اور لہسن کی چٹنی جبکہ مربوں میں سیب، آنولہ، ہڑ اور گاجر کے مربے سب سے زیادہ مشہور ہیں ۔حیدرآبادی کھانوں میں بگھارے بینگن، مرچ کا سالن، شامی کباب، چکن کباب، دم کے کباب، سوکھے کباب، کھاری مچھلی، بمبل مچھلی، ’بڑی چاول‘مُرکل، بڑی مونگ، مرچ دہی، مصالحہ بینگن، مصالحہ نہاری، میٹھی پوری بہت مشہور ہیں، جبکہ میٹھے میں ’ڈبل کا میٹھا‘ اور ’خوبانی کا میٹھا‘ حیدرآبادی کھانوں کا خاصا سمجھے جاتے ہیں بلکہ اچار گلی میں سموسہ طرز کی خاص قسم کے لقمی بھی تیار کی جاتی ہے جو تکون شکل کی ہوتی ہے۔

کھانے پینے کے شوقین افراد یہانںکےعربی ہریس کو بھی خاصا پسند کرتے ہیں۔ 1966-67 میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے آغاز کے وقت ممتازٹی وی آرٹسٹ اور لکھاری جن میں انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، محسن شیرازی، حسینہ معین، سبحانی بائی یونس، قاضی واجد، سمیت انگنت فنکارآکثر یہاں کی سوغات کھانے آتے تھے حیدرآباد کالونی کی ممتاز شخصیات میں اردو کے ممتاز ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین جو اپنے ڈرامے’مرزاغالب بندرروڈ پراورتعلیم بالغاں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

 نیوز کاسٹررضا علی عابدی، ممتاز اسکالر شاہ بلیغ الدین، مصباح الدین شکیل،طالبعلم رہنما ڈاکٹر رشید حسن خاں، ممتاز رائٹرمترجم محقق صحافی عبدالروف عروج،صحافی، غازی صلاح الدین،صحافیثنااللہ، نذر حیدرآبادی، ڈاکٹر یسین زبیری. سکوارڈن لیڈر سید فضل حسین شعیبی، سابق ایم ڈی واٹر بورڈمصباح الدین فرید، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیرسابق رکن سندھ اسمبلی نصراللہ خان شجیع .ظہیر شرف. محترمہ بے نظیر بھٹوکی سیکیورٹی کے نگران منور سہروردی، فوٹو گرافر عبدالرزاق, مراد میمن گوٹھ اسکول کی پرنسپل مس مسرت ان کے شوہر ہمت خان اور 1970 کی دہائی میں قومی اسمبلی کے مترجم عبدالرزاق گلبرگوی شامل ہیں ۔

حیدرآباد کالونی سیاسی تحریکوں کے حوالے سے بھی پیش پیش رہا ہے۔حیدرآباد کا لونی کے پرانے لوگوں کی تعداد اب یہاں انتہائی کم ہے، جبکہ میمن برادری اور دیگر قومیتوں کے افراد یہاں آباد ہوگئے ہیں ۔حیدرآ باد کالونی کےسینٹرل جیل سے منسلک ہونے کی وجہ سے یہاں کے رہائش پذیر مکینوں اور کاروباری حضرات کی زندگی گذشتہ 7 سالوں سے مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ 

جیل کی سیکورٹی کے لئے نصب کئے جانے والے موبائل فون جیمر ز اتنے طاقتور ہیں کہ جیل کے اطراف میں رہائش پذیر مکینوں اور کاروباری افراد کے موبائل فون ناکارہ ہوکر رہ گئے ہیں بعض اوقات سگنلز جام ہونے کی وجہ سے یہاں کے رہائیشیوں کو اپنے اہلِ خانہ سے رابطے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اگر انھیں کسی عزیز کو فون کرنا یا سننا ہو تو جیل کی عمارت سے تقریباً دو کلومیٹر دور جانے کے بعد ان کے موبائل فونز کام کرتے ہیں۔ جبکہ سیکورٹی کے نام پر رات کے وقت جیل روڈ کے اطراف کی تمام مرکزی شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ان سڑکوں سے گزرنے والوں اور علاقہ مکینوں کوذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین