وزیراعظم پاکستان عمران خان بلا شک وشبہ ایک انتہائی خوش قسمت انسان ہیں اور جب اُن کو لگتا ہے کہ سب کچھ ہاتھ سے جا چکا ہے تو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ چھا جاتے ہیں۔
بطور کرکٹر کسی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہی ہو سکتی ہے کہ وہ ورلڈ چیمپئن ٹیم کے کپتان ہوں، عمران خان کو یہ اعزاز ملا جس میں ان کی قسمت کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔
انگلینڈ کے خلاف رائونڈ میچ میں اچانک ہونے والی بارش کی وجہ سے ملنے والا ایک پوائنٹ ٹیم کے لئے ورلڈ کپ جیتنے کا باعث بنا اور یہ سب کچھ ظاہر ہے عمران خان کی قسمت کی وجہ سے بھی ہوا۔
یہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہوا کہ ویسٹ انڈیز آسٹریلیا کے راؤنڈ میچ میں ویسٹ انڈیز ایک جیتا ہوا میچ ہار گئی اور پاکستان ایک پوائنٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔
قسمت نے عمران خان کا سیاست میں بھی بھرپور ساتھ دیا۔ 2014کے دھرنے میں کچھ حاصل نہ ہونے کے بعد خان صاحب اور انکی ٹیم مکمل طور پر مایوس ہو چکی تھی کیونکہ اس سے بڑا احتجاج نہیں ہو سکتا تھا اور حکومت ٹس سے مس بھی نہ ہوئی کہ اچانک پاناما لیکس نمودار ہوگئی اور اُس کے بعد تو جیسے حکومت مخالف تحریک کو پر لگ گئے اور وہ مسلسل آگے بڑھتی رہی اور بالآخر خان صاحب نےکامیابی حاصل کرلی۔
ابھی کچھ دنوں ہی کی بات ہے ہر طرف سے یہ آوازیں آنے لگی تھیں کہ ان کی حکومت کچھ ہفتوں میں ختم ہونے والی ہے، بڑے بڑے معروف صحافیوں نے جو عمران خان کے مداح تھے، کہہ دیا تھا کہ بس اب حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے مگر ان کی قسمت پھر کام آئی اور انہوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر جو شاندار تقریر کی اُس نے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پھونک دی اور وہ ایک ایسے لیڈر بن کر ابھرے جس کے معترف اُس کے بدترین مخالف بھی ہوئے۔
اُن کی تقریر کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور اب کسی طرف سے یہ آوازیں نہیں آ رہیں کہ عمران خان کی حکومت چند ہفتوں کی مہمان ہے جبکہ ان کے مخالفین کی بدقسمتی کا سفر ابھی جاری ہے۔
عدالتوں میں اُن کے خلاف کیسوں کی بھرمار ہے۔ کہیں ثبوت ہیں اور کہیں نہیں مگر ان کی تکلیف بڑھتی جارہی ہے۔ اُن کے مخالفین اسے ریاستی جبر کہیں، ناانصافی کہیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی قسمت اُن کا ساتھ نہیں دے رہی، جس طرح عمران خان کا ساتھ دیتی ہے۔ دن کسی کے بھی ایک سے نہیں رہتے چاہے وہ حاکم مملکت ہی کیوں نہ ہو۔
عمران خان کو اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں تقریر کی شاندار پذیرائی کے بعد مزید ایمانداری اور تندہی سے امور مملکت چلانا چاہئیں ورنہ یہ عزت و تکریم عارضی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے لئے بہت ضروری ہے کہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کے انتخاب میں و ہی طرزِ عمل اختیار کریں جو حقیقی ریاست مدینہ کے حاکم کا ہونا چاہئے۔ دوستی اور اقربا پروری سے نکل کر ہر اُس دوست نما دشمن سے دوری اختیار کریں جو عمران خان کی قربت حاصل کر کے محل تعمیر کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
امید تو یہ ہی ہے کہ انہیں سب کے بارے میں پتا ہے، ہو سکتا ہے وہ مصلحتاً خاموش ہوں مگر یہ خاموشی اگر طویل ہوئی تو قسمت بھی ان کا ساتھ دینا چھوڑ سکتی ہے۔ اس کا ثبوت وہ مشکلات ہیں جن کا سامنا ان کے مخالفین کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا اب یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ اندرونی چیلنجز سے کیسے نبٹتے ہیں کیونکہ تقریباً ہر محاذ پر انہیں گمبھیر صورتحال کا سامنا ہے۔
مہنگائی نے قوم کی کمر توڑ دی ہے۔ اکثر عمران خان اپنی تقاریر میں حضرت عمرؓ کا یہ قول دہراتے ہیں کہ اگر میرے دورِ حکومت میں ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو میں قصوروار ہوں گا، عمران خان کو بھی امور مملکت چلاتے ہوئے یہ احساس پیدا کرنا ہو گا اور اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔
عمران خان کے لئے بہت ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے لوگوں کا خود احتساب کریں ورنہ عزت تو ماضی میں بہت سے حکمرانوں کو بھی بہت ملی تھی مگر آج جو ان کا حال ہے اُس سے دنیا واقف ہے۔
جو خراب طرزِ حکومت ان کے مخالفین نے ماضی میں اختیار کیا، اس کے باوجود ان کی ناکام ہونے میں کافی وقت لگا لیکن اگر عمران خان نے بھی وہی طرزِ حکومت اختیار کیا تو انہیں ناکامی میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کیونکہ یہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جہاں چند لمحوں میں کوئی بھی بیانیہ پوری دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔