• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رانا ثناء اللہ کا کیس آگے نہ بڑھنا پراسیکیوشن کی کوتاہی ہے، رشیدرضوی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ رانا ثناء اللہ کا کیس آگے نہ بڑھنا پراسیکیوشن کی کوتاہی ہے، رانا ثناء اللہ کے وکیل فرہاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اب تک چار پراسیکیوٹرز تبدیل کیے جاچکے ہیں، ہر تاریخ پر حکومت کی طرف سے نیا پراسیکیوٹر مقرر کردیا جاتا ہے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پاکستان اور فرانس کے درمیان اگوسٹا آبدوزوں کی ہونے والی پچیس سال پرانی ڈیل میں مبینہ کرپشن اور اس سے جڑے واقعات کا معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے، ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ پراسیکیوشن کو چارج فریم کرنے سے سات دن پہلے تمام گواہوں کے بیانات اور شواہد فراہم کرنا ہوتے ہیں، رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کو 95دن ہوگئے ہیں، عدالتوں اور وکیلوں کی سستی ہے کہ نہ انہیں ثبوت دیئے جارہے ہیں نہ چارج فریم ہورہا ہے، اس کیس کا تو 90دن میں فیصلہ ہوجانا چاہئے تھا، یہ کیس دو گواہوں کا ہے جنہوں نے گاڑی روک کر چیزیں ریکور کی ہیں،رانا ثناء اللہ کا کیس آگے نہ بڑھنا پراسیکیوشن کی کوتاہی ہے، پراسیکیوشن کو اسی مرحلہ پر شواہد فراہم کرنا چاہئیں لیکن میری اطلاعات کے مطابق جو ویڈیو بنی ہے وہ ریکارڈ پر نہیں لائی جائے گی۔ رانا ثناء اللہ کے وکیل فرہاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اب تک چار پراسیکیوٹرز تبدیل کیے جاچکے ہیں، ہر تاریخ پر حکومت کی طرف سے نیا پراسیکیوٹر مقرر کردیا جاتا ہے، تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ مقررہ عدالت کیلئے ایک جج کو مدت ختم ہونے سے پہلے ہٹادیا گیا ہو، رانا ثناء اللہ کیس میں ابھی تک نئے جج کا نوٹیفکیشن نہیں کیا گیا ہے، ڈیوٹی جج صرف ارجنٹ نوعیت کی سماعت ہی کرسکتے ہیں، رانا ثناء اللہ پر چارج عدالت نے فریم کرنا ہے ، اس وقت عدالت میں ڈیوٹی جج ہیں جنہیں چارج فریم کرنے کی اتھارٹی نہیں ہے۔ فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ شہریار آفریدی نے رانا ثناء اللہ کی جن ویڈیوز کا دعویٰ کیا تھا آج تک وہ عدالت میں پیش نہیں کی گئی ہیں، سیف سٹی کے کیمروں نے جو فوٹیج لی ہے وہ رانا ثناء اللہ کے موقف کو سپورٹ کرتی ہے، اے این ایف کا کلیم ہے انہوں نے رانا ثناء اللہ کو تین بج کر پچیس منٹ پر روکا اور پھر بابو سابو انٹرچینج کے پاس 45منٹ کی پروسیڈنگ کی ،جو فوٹیج نکلی ہے اس کے مطابق رانا ثناء اللہ کی گاڑی کو پہلی دفعہ کنال ویو پر 3بج کر 35منٹ پر کیمروں نے captureکیا ہے، دوسرے انہیں 3بج کر 48منٹ پر فردوس مارکیٹ پر captureکیا گیا، اے این ایف کہتی ہے کہ بابو سابو پر انہوں نے 45منٹ کی پروسیڈنگ کی ، اس صورت میں تو رانا ثناء اللہ کو سوا چاربجے ان کیمروں پر capture ہونا چاہئے تھا ، اس صورتحال میں رانا ثناء اللہ کا موقف درست معلوم ہوتا ہے کہ انہیں گن پوائنٹ پر اغوا کر کے چند منٹ میں پوری اسپیڈ پر آر ڈی آفس لے جایا گیا اور وہاں جاکر ہیروئن پلانٹ کی گئی۔ فرہاد علی شاہ نے کہا کہ ایف آئی آر میں رانا ثناء اللہ کے افغانیوں سے تعلقات بتائے گئے ہیں، عدالت میں رانا ثناء اللہ کو پیش کیا گیا تو ریمانڈ نہیں لیا گیا بلکہ جیوڈیشل ریمانڈ کیلئے کہا گیا حالانکہ نیٹ ورک پکڑنا تھا تو اس کیلئے ملزم کی کسٹڈی ضروری ہوتی ہے، چالان میں کوئی ایسا ثبوت نہیں جو رانا ثناء اللہ کو منشیات کے کسی بین الاقوامی گروہ سے جوڑتا ہو۔ فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اے این ایف کے پراسیکیوٹر عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ ہمارا وزیر نارکوٹکس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ جو کہہ رہے ہیں اپنے طور پر کہہ رہے ہیں اس کیس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، وزیر نارکوٹکس کی باتیں اور چالان کے محرکات بالکل مختلف ہیں، وزیر کے بیانات اور چالان کا متن دو مختلف اسٹوریز بیان کرتے ہیں، وزیر کی بات کچھ اور چالان میں کی گئی بات کچھ اور ہے۔ نمائندہ جیو نیوز لاہور عثمان بھٹی نے کہا کہ اے این ایف کے پراسیکیوٹر کے مطابق انہوں نے اپنے پاس ابھی تک موجود ثبوت عدالت میں پیش کیے گئے چالان کے ساتھ منسلک کردیئے ہیں، سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج میں رانا ثناء اللہ کے وکلاء کو کوئی ایسی چیز نظر نہیں کہ رانا ثناء اللہ کو پکڑا گیا تو انہوں نے مزاحمت کی یا منشیات برآمد ہونے کی کوئی فوٹیج سامنے آئی ہو۔

تازہ ترین