مولانا فضل الرحمٰن عازمِ دھرنا ہیں اور اس استقلال کے ساتھ کہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی حالتِ نزاع دیدنی ہے۔ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف ہیں کہ قائد محترم اور برادرِ بزرگ کی ہدایات کے باوجود خرابیِ صحت کے سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے معذرت پہ معذرت کیے جا رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین کبھی مذہبی کارڈ، کبھی دھرنے کے خلافِ جمہوریت کردار اور کبھی اس کے مضمرات کے بہانے تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اور مولانا ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ وہ پہلے روز سے طے کیے بیٹھے ہیں کہ ان اسمبلیوں کو جانا چاہیے اور حکومت کو عوامی قوت سے چلتا کیا جائے۔ لیکن حزبِ اختلاف کو اُن کی راگنی بے وقت اور مہم جویانہ نظر آئی۔
وقت گزرتا گیا اور ’’تبدیلی‘‘ والوں کا رنگ پھیکا پڑتا گیا اور مولانا کا آخری دھکے پہ اصرار بڑھتا گیا۔ وہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح محض شعلہ بیانی سے پوری وفاقی و صوبائی ریاستی مشینری کو بے بس و لاچار کیا جاسکتا ہے اور پھر انتخابات میں 20 لاکھ سے زیادہ ووٹ بھی لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر کیا تھا اُنھوں نے ’’ختمِ نبوت‘‘ کے نام پر اپنے دیرینہ مذہبی حلقے کو گرمانا شروع کر دیا اور خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
اُنہی کی کوششوں سے آل پارٹیز کانفرنس ہوئی اور متحدہ اپوزیشن بنتی نظر آئی۔ لیکن مولانا نے بھانپ لیا تھا کہ ان تلوں میں ابھی تیل نہیں، لہٰذا وہ زندگی میں پہلی بار سولو فلائٹ پہ چل نکلے۔ ’’آزادی مارچ‘‘ کا اعلان کیا اور اکتوبر میں دھرنے کا طبلِ جنگ بجا دیا۔ وہ اپنا ایجنڈا طے کر چکے اور سیاسی پہل قدمی بھی کر چکے۔
اب مولانا اطمینان سے نوابزادہ نصر اللہ خاں والی سیاسی بیٹھک سجا کے بیٹھے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اور پیپلز پارٹی کے وفود آ رہے ہیں، جا رہے ہیں۔ زور اُن کا مگر اس بات پر ہے کہ مولانا ذرا تاریخ آگے بڑھا دیں، اس پر نہیں کہ مولانا آخر چاہتے کیا ہیں؟ مولانا بظاہر بڑے غضبناک دکھائی دے رہے ہیں، لیکن سیاسی سمجھداری اور معاملہ فہمی کوئی اُن سے سیکھے۔ وہ نہ تو کوڑھ مغز ملا ہیں اور نہ ہی فصلی بٹیرے۔
وہ جمعیت علمائے ہند کی سو سالہ استعمار دشمن اور جمہوریت نواز شاندار روایات کے امین ہونے کے دعویدار ہیں اور سیاست کے نہایت منجھے ہوئے کھلاڑی بھی۔ لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ اُن کے سبھی بزرگ پکے سیکولر اور کچھ کچھ سوشلسٹ بھی تھے۔ مولانا نے اب 27 اکتوبر کی تاریخ بھی دے دی ہے اور باقی اپوزیشن کو قابلِ رحم حالت سے دوچار کر دیا ہے۔ اب لوگ حیران و پریشان ہیں کہ مولانا فضل الرحمان جیسا زیرک اور متین سیاستدان یونہی تو میدانِ کارزار میں نہیں اُتر رہا؟ اور سازشی نظریہ داں ہیں کہ طرح طرح کے سازشی محل تعمیر کرنے میں مصروف! یقیناً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی عمران خان کے بغیر سیاسی تسلسل کو قائم رکھنا چاہتی ہیں اور مولانا کو ممکنہ مہلک نتائج سے ڈراتی ہیں۔ آخر اُن کا تاریخ آگے بڑھانے پہ کیوں اتنا اصرار ہے؟ لگتا ہے ہر ایک کی اپنی اپنی ٹائمنگ ہے کہ کب کسے کچھ ایڈوانٹج ملنے کا زیادہ امکان ہے۔
مسلم لیگ ن کا اصرار نومبر پہ ہے اور پیپلز پارٹی کا اگلے برس مارچ تک مارچ کو آگے کرنے پہ زور ہے کہ شاید معاشی بحران اپنا سیاسی رنگ جمائے۔ اب مولانا خوب سمجھتے ہیں کہ کون کس مہینے پہ کیوں اصرار کر رہا ہے اور وہ اپنے حساب کتاب کے زائچے پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ آخر وہ کیوں اپنی طاقت سے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی والوں کو کوئی فائدہ اُٹھانے دیں کہ وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں اور مائنس ون کی مبینہ بوگی پہ کوئی اور سوار ہو جائے۔ منظر دلچسپ ہے۔
عمران خان نے اسلامو فوبیا کے خلاف اور نبی کریمﷺ کے اسلام کے حوالے سے اپنے یو این کے خطاب میں دراصل ’’ختمِ نبوت‘‘ کی مہم سے ہوا نکالنے اور داخلی سامعین کو کشمیر پہ زور دار تقریر سے پھر سے اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش یوں ہی نہیں کی۔ مَیں مولانا کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب اُنھوں نے وادیِ سیاست میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔
اُن کے والدِ محترم مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے ہماری پرانی نیازمندی تھی اور عبیداللہ سندھی کے سیکولر اور سوشلسٹ پیروکاروں کے ساتھ ہماری قریبی رفاقت تھی۔ لیکن نوجوان فضل الرحمٰن کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی بھی تو ہری پور جیل میں جہاں ہم ضیا الحق کے دور میں دائمی طور پر محبوس تھے۔ مولانا بار بار جیل آتے اور رہا ہو کے چلے جاتے۔ اس دوران اُنہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ایک لمبی رفاقت قائم ہو گئی۔ وہ خود بھی مطالعہ کرتے اور مباحث میں جان ڈالتے۔
شعر و شاعری سے اُنہیں بہت دلچسپی تھی جسے دیکھ کر ہم نے اُنہیں صوفی شاعری کی طرف راغب کیا اور وہ موسیقی کو بدعت جانتے ہوئے بھی کافیوں کے الوہی رمز میں کھو سے جاتے۔ میری کوشش تو اُنہیں سوشلسٹ بنانے کی تھی جس طرح کہ مولانا عبید اللہ سندھی تھے، لیکن وہ سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجیت کے کٹر مخالف ہوتے ہوئے بھی فقط جمہوریت پسندی پہ قانع رہے۔
ایک روز مولانا اچانک میرے سیل میں تشریف لائے کہ اُن کی رہائی کے احکام آ گئے ہیں اور وہ ایم آر ڈی کی میٹنگ کے لئے ایبٹ آباد میں واقع ایئرمارشل اصغر خاں کے گھر جا رہے ہیں، جہاں فیصلہ ہونا تھا کہ ایم آر ڈی جنرل ضیاالحق کے 1985 کے غیرسیاسی انتخابات میں حصہ لے یا اُن کا بائیکاٹ کرے۔
مولانا مجھ سے مشورہ چاہتے تھے۔ ہم نے ہر دو امکانات پہ خوب تبادلہ کیا اور یہ اتفاق ہوا کہ ایک غیرموثر بائیکاٹ کا فائدہ صرف ضیاالحق کو ہوگا، لہٰذا ان انتخابات میں احتجاجاً حصہ لیا جائے۔ لیکن کہیں راولپنڈی میں کھچڑی پک چکی تھی اور پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئرمین غلام مصطفےٰ جتوئی سمیت لوگ بظاہر سخت گیر اصولی موقف پر ڈٹتے ہوئے بائیکاٹ کا فیصلہ کروانے میں کامیاب ہو گئے اور جنرل ضیا الحق اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔
البتہ مولانا فضل الرحمٰن اور محترم غوث بخش بزنجو نے بائیکاٹ کے فیصلے کی سخت مخالفت کی اور بعد ازاں تاریخ نے ان دو حضرات کے تجزیے کو درست ثابت کیا اور ضیاالحق ایک غیرسیاسی کھیپ کو پیدا کرنے اور ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب مولانا کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کر کے کیا حاصل کرنے جا رہے ہیں؟ کم از کم ایجنڈا تو واضح ہو۔ سول سوسائٹی کے جمہوری و سماجی حقوق کے اعلان نامے سے اُنہوں نے اتفاق کرتے ہوئے فقط ایک گرہ لگائی تھی، سو وہ لگا لیں، لیکن انسانی حقوق کے عالمی اعلان نامے پہ حلف اُٹھانے کے ساتھ! آگے کیا ہوتا ہے، سب سامنے آ جائے گا، شہر کے اندیشے میں دُبلا ہونے کی قاضی فکر نہ کرے۔