• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحت عامہ کے سارے نظام میں ریڑھ کی ہڈی افرادی قوت ہے۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری علاج کو یقینی بنانا ہے اور علاج کی پہلی شرط ڈاکٹرز کی دستیابی ہے۔ حکومت ملنے کے بعد اعداد و شمار کے تفصیلی جائزے سے معلوم ہوا کہ پچاس فیصد سے زائد ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی اسامیاں خالی ہیں۔ اگر کبھی بھرتیوں کا عمل جزوی طور پر شروع ہوا بھی تو وہ سرخ فیتہ اور ادارہ جاتی سست روی کا شکار ہو گیا۔ محکمانہ سطح پر میٹنگز کے علاوہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے رابطہ کر کے رکی ہوئی بھرتیوں کے سلسلے کو جاری کرنے کے علاوہ نئی اسامیوں کی بھرتیوں کو مشتہر کرکے اس عمل کو تیز کیا گیا۔ صرف ایک سال میں محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر اور محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن میں ہم 14903نئے ڈاکٹرز کی بھرتیاں کرکے ان کو سسٹم میں لے آئے ہیں۔ محض ڈاکٹرز ہی نہیں، 3543نرسز کی پوزیشنز پر بھرتیاں مکمل کرنے کے علاوہ 7400 بھرتیوں کا عمل جاری ہے۔ اس کے علاوہ 3537پیرا میڈیکل اسٹاف کی بھرتیوں مکمل ہونے کے کے قریب اور مزید 1400 بھرتیوں کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے۔ اسی طرح 442 فارماسسٹس کی بھرتیاں بھی کی گئی ہیں۔ افرادی قوت کے پورا ہونے کے بعد سروس ڈیلیوری میں واضح بہتری نظر آئے گی۔

بنیادی اور دیہی مراکز صحت میں ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے بڑے اسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ رش اور پھر رش کی وجہ سے سروس کوالٹی بری طرح متاثر ہوتی ہے اس لیے ان مراکز صحت پر ڈاکٹرز کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پنجاب بھر کے 2503بنیادی مراکز صحت میں سے 93سینٹرز پر نئے ڈاکٹرز کی دستیابی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ ماہرین کی 2200اسامیوں پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔ اکثر اسپتالوں میں مشینری اور دیگر سہولتیں کی دستیابی کے باوجود محض بے ہوشی کے ماہرین anasthetistsکے نہ ہونے کی وجہ سے سرجریز بند تھیں ان اسپتالوں میں فوری طور پر ٹریننگ پروگرام، نئی بھرتیاں اور روٹیشن کے تحت ان ماہرین کا بندوبست کیا گیا۔ امید ہے کہ اس سال کے آخر تک ہم ڈاکٹرز کی تمام خالی اسامیوں پر بھرتی کرنے میں کامیاب ہونگے۔ علاج کی سہولتوں پر صرف اس ایک قدم سے بہت مثبت اثر ہو گا۔ ایک اور اہم مسئلہ ڈاکٹرز کی ترقی کا تھا جو محض سرخ فیتہ و داخل دفتر ہونے کی وجہ سے سالوں سے وہیں پڑی تھیں اس عمل کو تیز کیا گیا اور صرف 2019میں اب تک صرف ڈاکٹرز کی 1673ترقیاں کی گئیں۔

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر پنجاب میں زچہ بچہ صحت کے پانچ نئے اسپتالوں پر فوری کام شروع کیا گیا۔ ان میں میانوالی، اٹک، راجن پور، لیہ اور بہاولنگر میں زچہ بچہ صحت کے اسپتال شامل ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب میں زچہ بچہ صحت کے اشاریوں کے بہتر نہ ہونے کے سبب وہاں خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ گنگا رام اسپتال میں 400بستروں پر مشتمل اسپیشل زچہ و بچہ کواٹرنری اسپتال کا منصوبہ بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ بچوں کے لیے بہترین علاج اورجدید ریسرچ کے لیے چائلڈ ہیلتھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔

یہاں اسکول ہیلتھ اینڈ نیو ٹریشن پروگرام کا ذکر کرنا بہت مناسب ہوگا۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب کے 9اضلاع میں پائلٹ کے طور پر شروع کئے گئے پروجیکٹ کے تحت ابھی تک 7442بچوں کا طبی معائنہ کیا گیا ہے۔ بچوں کا طبی و غذائی معائنہ پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس پروجیکٹ کا رسمی افتتاح بہت جلد کر دیا جائے گا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ حکومت کی خصوصی توجہ بنیادی مراکز صحت کی بہتری پر ہے۔ وزیراعظم ہیلتھ اینی شیٹو کے تحت آٹھ اضلاع اٹک، چنیوٹ، ڈی جی خان، میانوالی، جھنگ، قصور، لودھراں اور راجن پور میں مخصوص بنیادی مراکز صحت اور دیہی مراکز صحت کی تعمیر نو اور تزین نو کی جا رہی ہے۔ 35دیہی مراکز صحت میں بچوں کی نرسریز کا قیام اور ایمر جنسی بلاکس کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ بڑے شہروں میں اسپتالوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو کی سطح کے اسپتالوں میں سہولتوں کو بہتر بنایا جائے۔ صوبہ بھر میں اس وقت 40اسپتالوں کی ری ویمپنگ پر کام جا ری ہے جن میں 25ڈی ایچ کیو اور 15ٹی ایچ کیو شامل ہیں۔ گزشتہ حکومت نے افتتاحی تختیاں لگانے کے بعد اس پروجیکٹ کو نامکمل چھوڑ دیا تھا، کہیں 20 فیصد تو کہیں 40 فیصد تعمیر کے بعد ہی کام بند کر دیا۔ فنڈز کی فراہمی میں رکاوٹوں کو دور کرنے بعد اس پر تیزی سے کام شروع کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر کے حوالے سے پنجاب میں 9بڑے اسپتالوں پر کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان میں نشتر۔2ملتان، چلڈرن اسپتال بہاولنگر، ڈی جی خان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، بہاولپور برن سنٹر کے علاوہ مزید 12اسپتالوں میں ایمرجنسی کی بہتری، جناح اسپتال میں سرجیکل ٹاور کی تعمیر، ڈی جی خان میں نئے بلاکس کی تعمیر کے علاوہ میڈیکل کالج کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔ اسپتالوں میں مہمان خانہ جات تعمیر کیے گئے ہیں جو مریضوں کے لواحقین کو رہائشی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کو بغیر قانونی اور ادارہ جا تی ہوم ورک کے شروع کیا گیا۔ 17ارب روپے کی خطیر رقم ایک نجی تنظیم کو کسی ضابطے کے بغیر ادا کی گئی۔ اس ادارے کو پی کے ایل آئی ایکٹ کے ذریعے قانون اور ضابطے کے تحت لایا گیا ہے۔

صحت عامہ کی سہولتوں کی تمام آبادی تک رسائی کیلئے صحت انصاف کارڈز ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کارڈ کم آمدنی والے گھرانوں کو دیا جا رہا ہے تاہم مستقبل میں اس کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے گا۔ گزشتہ ایک سال میں صوبہ بھر کے 28اضلاع میں تیس لاکھ گھرانوں میں یہ کارڈز تقسیم کیے گئے ہیں جلد ہی دیگر اضلاع تک اس کا دائرہ کار پھیلا دیا جائے گا۔ اس کارڈ کے تحت ایک گھرانہ 720000تک مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کی سہولیات سے استفادہ کر سکتا ہے۔ رقم کی حد ختم ہونے کی صورت میں اضافے کی درخواست بھی دی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے پنجاب ہیلتھ سیکٹر اسٹرٹیجی 2019-2028 کو متعارف کروایا ۔ اس اسٹرٹیجی میں ماں اور بچے کی صحت، خوراک، بہبود آبادی، ہیلتھ گورننس اور مانیٹرنگ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، افرادی قوت، ادویات اور جدید ٹیکنالوجی، ایم آئی ایس، بیماریوں سے بچاؤ، مریض کی حفاظت اور دیکھ بھال، ہیلتھ ایمرجنسیز اور ون ہیلتھ کے موضوعات پر اگلے دس سالوں کا روڈ میپ دیا گیا ہے۔

تازہ ترین