• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عرفان بھائی آپ کو یاد ہے نا آپ رمضان کے مہینے میں مجھ سے ملنے جاپان کی امیگریشن جیل آئے تھے اور آپ نے ہی مجھے اپنا نمبر دیا تھا کہ کبھی کوئی ضرورت ہو مجھے کال کرلینا، آج مجھے آپ کی مدد کی بہت ضرورت ہے۔ مجھے خدا کے واسطے کسی بھی طرح پاکستان بھجوا دیں، میری والدہ اسپتال میں ہیں، قرض واپس لینے کے لئے رشتہ دار گھر والوں کو روز ذلیل کرتے ہیں اور میں یہاں جیل میں ہوں، اس سے بہتر ہے اپنے ملک میں اپنی جان دے دوں‘‘۔

یہ فون کال ایک پاکستانی بھائی کی تھی جو ڈیڑھ سال سے جاپان کی امیگریشن جیل میں قید تھا اور اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایجنٹ کے ذریعے غیر قانونی طور پر پندرہ لاکھ روپے دیکر غیر قانونی طریقے سے جاپان آیا تھا اور جعلی ویزے اور کاغذات کے جرم میں یہاں قید تھا، ایسے درجنوں پاکستانی یہاں قید ہیں تاہم اب ان لاکھوں پاکستانیوں کے لئے خوشی خبری ہے کہ جاپان کی حکومت نے قانونی طور پر لیبر بلوانے کے لئے حکومتِ پاکستان کے ساتھ رضا مندی ظاہر کردی ہے جس کے تحت جاپان پاکستانی لیبر کو قانونی طریقے سے ملازمتوں پر ویزہ فراہم کرے گا بلکہ لاکھوں کی تنخواہ کے ساتھ بہترین سہولتیں بھی فراہم کرے گا۔ جاپانی حکومت نے پاکستانی ہنر مندوں کو تکنیکی تربیت فراہم کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جس سے بھی بڑی تعداد میں قانونی طور پر پاکستانی جاپان آسکیں گے۔ اس حوالے سے جاپان میں پاکستان کے سفیر امتیاز احمد کی خدمات قابلِ تعریف ہیں کیونکہ جاپان سے قبل بالکل اسی طرح کا ایک معاہدہ جنوبی کوریا کی حکومت کے ساتھ بھی ان کی کوششوں سے عمل پذیر ہوا تھا جس کے تحت پاکستانی ہنر مندوں کو کورین زبان سیکھنے کا کورس مکمل کر کے کورین حکام کے سامنے اس کا امتحان پاس کرنا تھا اور بنیادی انٹرویو دینا تھا جس کے بعد پاکستانی قانونی ویزے پر بہترین تنخواہ پر کوریا میں ملازمت کرسکتے تھے۔ اب ہر سال ایک ہزار پاکستانی جنوبی کوریا میں قانونی ملازمتوں کے لئے باآسانی جارہے ہیں۔ جہاں تک جاپان اور پاکستان کے درمیان ملازمتوں اور تربیت کے معاہدے کی بات ہے تو اس حوالے سے جاپان میں پاکستان کے سفیر کا کہنا ہے کہ ایک سے دو ماہ کے دوران ملازمتوں کے لئے پاکستانی ہنرمندوں کو جاپان بلانے کا معاہدہ طے ہوجائے گا جس کے بعد چودہ شعبوں میں پاکستانی ملازمت کرسکیں گے جن میں نرسنگ، کنسٹرکشن، زراعت، مینو فیکچرنگ، لائٹ انجینئرنگ، ماہی گیری سمیت کئی اور شعبے شامل ہیں۔ تاہم ان پاکستانیوں کو لانے کے لئے حکومتِ جاپان کے ساتھ طریقہ کار پر بات چیت جاری ہے جبکہ ہماری کوشش ہوگی کہ سالانہ پانچ ہزار پاکستانی یہاں آسکیں لیکن اس کیلئے جاپانی زبان کا امتحان پاس کرنا لازمی ہوگا۔ پھر یہ ملازمتیں اسکلڈ ورکرز کے لئے ہیں لہٰذا شعبے کا بنیادی ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوگا جس کیلئے پاکستان میں ہمیں بہترین تیاری کی ضرورت ہوگی تاکہ میرٹ پر لوگ جاپان آسکیں اور ایجنٹ مافیا کا خاتمہ ہو سکے۔ تکنیکی تربیت کے حوالے سے سفیرِ پاکستان کا کہنا ہے کہ تربیت کے لئے بنیادی معاہدہ طے پا چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن کے دو ذیلی ادارے نیو ٹیک اور نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ذریعے منتخب شدہ افراد اور ہنر مند جاپان میں بنیادی تربیت کے لئے جا سکیں گے۔ اس حوالے سے جاپان کے سرکاری ادارے GITechکے ساتھ ملکر ہم جاپان میں سیمینار منعقد کرارہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو اس پروگرام کے تحت جاپان لایا جا سکے۔ اسی حوالے سے کوئٹہ پاکستان جاپان کے اعزازی قونصل جنرل سید ندیم شاہ نے پاکستانی مین پاور کی جاپان آمد کے حوالے سے بتایا کہ ان کی پاکستان میں جاپان کے سفیر سے بات چیت میں معلوم ہوا کہ پاکستان سے اسکلڈ لیبر درآمد کرنے کی ایک وجہ جاپان میں پاکستانی کمیونٹی بھی ہے کیونکہ جب حکومتِ جاپان یہ فیصلہ کررہی تھی کہ کس ملک کے شہریوں کو بلایا جائے تو ایک ریسرچ ہوئی کہ کون سے ملک کے شہری جاپان میں پُرامن طریقے سے رہتے ہیں، زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور جاپانی معاشرے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں تو سات ملکوں کے شہریوں کو منتخب کیا گیا جس میں پاکستان بھی شامل تھا لہٰذا اب پاکستان سے اسکلڈ لیبر درآمد کرنے کا معاہدہ کیا جارہا ہے۔ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستانی بیرون ممالک جاکر کام کرنے سے زیادہ اپنے ملک میں ہی کام کرنے کو ترجیح دیں گے۔ دعا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس نہج پر جلد پہنچ جائے، آمین!

تازہ ترین