• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ،جامعات اور تعلیمی بورڈز میں من پسند ،سفارشی سربراہوں کا تقرر ہوگا

کراچی (سیّد محمد عسکری / اسٹاف رپورٹر) محکمہ بورڈز و جامعات نے سندھ کی جامعات اور تعلیمی بورڈز میں من پسند اور سفارشی سربراہوں کے تقرر کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں محکمے کی جانب سے پہلے تین جامعات کے وائس چانسلرز کے تقرر کے سلسلے میں ترمیمی اشتہار جاری کیا گیا اور یہ اشتہار اس وقت جاری کیا گیا جب درخواستیں دینے کی تاریخ کو گزرے ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ ترمیمی اشتہار میں درخواست میں وائس چانسلر کی عمر کی حد بھی بڑھا دی گئی اور تحقیقی پرچوں کی تعداد بھی 25 سے کم کر کے 15 کر دی گئی جبکہ 15 تحقیقی پرچے پروفیسر کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور ماضی میں جتنے بھی وائس چانسلر مقرر کئے گئے ان کے لئے 25 تحقیقی پرچوں کی شرط ہی رکھی گئی تھی۔ سندھ کے مشیر نثار کھوڑو کے ترجمان شکیل میمن نے کہا کہ وہ لاڑکانہ کے قریب راستے میں رہتے ہیں انہیں ان چیزوں کا علم نہیں البتہ سیکرٹری بورڈ و جامعات ریاض الدین سے اس حوالے سے پوچھا ضرور جائے گا۔ دوسری جانب سندھ کے ایک بیورو کریٹ کے مطابق ترمیمی اشتہار اس وقت قانونی ہوتا ہے جب اس میں درخواست دینے کی مدت ختم ہونے سے قبل ترمیم کی جائے مگر درخواست کی مدت ختم ہونے کے کئی مہینے بعد کی گئی ترمیم غیرقانونی ہوگی اور کوئی بھی اسے عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔ اسی طرح تعلیمی بورڈز کے سربراہان کے تقرر کے لئے جو اشتہار دیا گیا ہے اس میں عمر کی حد 62 سال سے کم کر کے 60 سال کر دی گئی ہے جبکہ اس سے قبل جو اشتہار دیئے گئے اس میں عمر کی حد 62 سال ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ حیرت انگیز طور پر تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کے لئے عمر کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے جس کے تحت اب 50 سال سے کم عمر افراد درخواست دینے کے اہل ہی نہیں ہوں گے اس کے علاوہ تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے لئے تدریس کے تجربے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے اس کی جگہ 10 سالہ انتظامی تجربہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر نثار کھوڑو کے ترجمان شکیل میمن نے کہا کہ وہ لاڑکانہ کے قریب راستے میں رہتے ہیں انہیں ان چیزوں کا علم نہیں البتہ سیکرٹری بورڈ و جامعات ریاض الدین سے اس حوالے سے پوچھا ضرور جائے گا۔ تعلیم بچائو کمیٹی کے سربراہ انیس الرحمٰن نے کہا کہ وائس چانسلر کے عہدوں کے لئے تحقیقی پرچوں کی تعداد میں کمی اور اشتہار کی تاریخ گزرنے کے کئی ماہ بعد ترمیمی اشتہار کا جاری ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کی تباہی کے بعد اب جامعات کو تباہ کرنے کا پروگرام بنا لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی بورڈز میں تدریس کے تجربے کو شامل نہ کرنا اور عمر کی کم سے کم حد مقرر کرنا اس بات کو ظاہر کر رہا کہ سرکاری بورڈز کو متنازع اور سیاسی بنا کر نجی تعلیمی بورڈز کو آگے لایا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ، چیف سیکرٹری اور مشیر نثار کھوڑو کو اس حوالے سے سخت ایکش لینا چاہیے۔
تازہ ترین