• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اروڑ‘‘ 1100 قبل مسیح میں چندرونسی حکمرانوں کا پایہ تخت تھا

شہر اروڑ جو سندھ کا پایہ تخت تھا، دریائے سیحون پر جسے مہران کہتے ہیں ہمہ اقسام کے محلات،کے محلوں، رنگ برنگ کی چراگاہوں، نہروں، حوضوں، پھلواریوں، باغیچوں اور گلکاریوں سے آراستہ ایک بڑا اور با رونق شہر تھا اور اس کی حدود مشرق میں کشمیر تک ،مغرب میں مکران تک، جنوب میں دیبل اور ساحل سمندر تک اور شمال میں کردون کے پہاڑوں اور کیکانان تک پھیلی ہوئی تھیں۔فتح نامہ اور قدیم نسخہ پارسی میں تلفظ ’’ارور‘‘ ہے اور باقی دوسرے سارے نسخوں کا ’’الور‘‘ ہے۔ 

بلا ذری یعقوبی ابن الاثیر ، ابن حوقل یاقوتی وغیرہ، عرب مورخوں اور جغرافیہ دانوں نے اس شہر کا نام ’’الرور‘‘ لکھا ہے جس کے شروع کا ’’ال‘‘ غالبًا معرفہ کا ہے۔ گمان غالب ہے کہ قبل از اسلام اس مقام کا نام ’’رود‘‘ تھا جس کے معنیٰ نہر یا دریا کے ہیں۔ 

حمزہ اصفہانی کا قول نقل کرتے ہوئے یا قوتی لکھتا ہے کہ دریائے سندھ کا قدیم ایرانی نام ‘‘مہران رود‘‘ تھا چونکہ اس کے قریب دریائے مہران دو شاخوں میں بٹا ہوا تھا اس لئے یا شاید ان دونوں شاخوں میں سے مشرقی شاخ کی نسبت سے ہی اس مقام کا نام رودیا نہر پڑگیا۔ 

محب اللہ بکھری اپنی ایک مختصر تاریخ (قلمی تنصیف) کے دوسرے باب ’’در تفصیل امصار وبلا دو حصار وقصبات سندھ ووجہ تسمیہ ولغت آنہا‘‘ میں لکھتا ہے کہ کسریٰ نوشیر وان کے عہد میں اس شہر کو ایک تاجر مسمیٰ ’’مہماس بن اروخ بن ہیلاج ارمنی‘‘ نے آباد کیا تھا، یہ روایت بھی اس شہر کی بنیاد کو ایرانی عہد اقتدار سے وابستہ کرتی ہے اور اسی لحاظ سے اس شہر کا ابتدائی فارسی الاصل نام ’’رود‘‘ کسی قدر قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اور ’’الور‘‘ (بے قاعدہ ’’ل‘‘ کو رکھنے اور ’’ر‘‘ کے حذف کردینے سے ) یہ دونوں تلفظ کم و بیش ان آخری ایام تک رائج ہے۔ 

تعجب ہے کہ بعض مورخوں نے ’’الور‘‘ کا تلفظ اختیار کیا ہے حالانکہ ’’ارور‘‘ نسبتًا زیادہ صحیح ہے۔ محقق بیرونی کتابوں میں اس شہر کا نام واضح طور پر ’’ارور‘‘ لکھتا ہے اور آج تک سندھ کے لو گ بھی اسی تلفظ کی مناسبت سے اس شہر کو ’’اروڑ‘‘ کہتے ہیں۔

اس شہر کے آثار روہڑی سے تقریبًا تین میل جنوب مشرق کی طرف ’’مشرقی نارے‘‘ کے سابقہ پٹے کے مغرب اور موجودہ ’’نئی نہر کے نزدیک ٹکری پر موجود ہیں اور جہاں تک ’’اروڑ‘‘ نام کا گائوں آباد ہے۔ایک روایت کے مطابق ٹکری کے نیچے شمال مغرب کی سمت دریاکے قدیمی بہائو کا پٹاصاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ 

یہ شہر سندھ میں مسلمانوں کی آمد سے قبل رائے اور برہمن خاندان کے عہد سے لے کر عربوں کےدور حکومت کے اوائل تک تقریبًا 125ھ تک سندھ کا پایہ تخت رہا جس کے بعد منصورہ دارالحکومت بنا۔ تخت گاہ اروڑ، بغرور، یعنی سندھ کا پایہ تخت تھا جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اپنے زیر اقتدار لایا۔ 

چونکہ اس وقت اروڑ کے قریب دوسرا مشہور شہر ’’بغرور‘‘ تھا اور اس کا نظام ، مرکزی حکومت ’’اروڑ‘‘ سے وابستہ تھا۔ اسی وجہ سے دونوں شہروں کو مجاز پایہ تخت ظاہر کیا گیا، یوں بھی سندھ میں دوہرے ناموں کے استعمال کا رواج ہے۔

الور سندھ کا قدیم شہر تھا جو اپنے راجائوں کی راجدھانی تھا اور یہاں پر رائے خاندان کی حکومت تھی۔عرب اس کو عام طور پر الورلکھتے ہیں یہ شہر دریائے سندھ کے ساحل پر باغات اور چشموں کے درمیان بڑے پر فضا مقام پر واقع تھا۔

الور کی حکومت قدیم زمانے میں نہایت وسیع و عریض تھی۔ مشرق میں کشمیر وقنوج تک ، مغرب میں مکران دیبل اور ساحل سمندر تک، جنوب میں گجرات اور سورت تک اور شمال میں قندھا ر، کرمان، جبل سلیمان اور کیکان (قلات) تک اس کی عمل داری تھی۔محمد بن قاسم الور کے تسخیر کے لئے الور پہنچے جو سندھ کا ایک پہاڑی شہر ہے۔ کئی ماہ تک اس کا محاصرہ رہا۔ آخر میں اہل شہر نے اس شرط پرہتھیار ڈالے کہ نہ تو اہل الور کو قتل کیا جائے گا اور نہ ان کے بت خانہ کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ 

محمد بن قاسم نے یہ شرط منظور کر کے مقامی باشندوں پر خراج لگایا اور ایک مسجد تعمیر کی ، جس میں ایک خطیب مقرر کیا جس کا خاندان کے افراد کئی صدیوں تکاس عہدے پر براجمان رہے۔ ہباری حکومت میں الور بہت ہی بڑا بارونق اور مرکزی شہر تھا، ابن حوقل لکھتا ہے کہ یہ شہر وسعت میں ملتان کے برابر ہے۔الرور، ارورر یا الور کے آثار روہڑی سے پانچ میل جنوب مشرق میں واقع ہیں۔

محمد بن قاسم کے حملے کے وقت یہ مقام سندھ کا دارالسلطنت تھا،اس زمانے سے تقریبًا دو صدیوں بعد یہ بستی اجڑ گئی، قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کے اجڑنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک ہولناک زلزلے کی وجہ سے دریا کی گزرگاہ تبدیل ہوگئی تھی۔جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ہجرت کر نے پر مجبور ہوئی اور یہاں کے لوگ روہڑی میں جا بسے اور اپنی پرانی بستی کا نام بھی ساتھ لے گئے۔

مگر یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس وقت سے الور میں کامل ویران ہوگئی کیونکہ عہد مغلیہ میں اس کی آبادی کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے، پرانی بستی کے کھنڈ ربھی نئی آبادی کے پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ لوگوں نے کھود کھود کر اس کے کھنڈر ات میں گہرے گڑھے بنادیئے ہیں اور دور ہنود کی بڑی بڑی اینٹیں ہر طرف اس میں نظر آتی ہیں ، بستی کے پاس مگر اس سے قریب ہی اورنگزیب کے زمانے کی ایک مسجد بھی ہے اس کے بعض حصے ابھی بھی قائم ہیں۔الور کے دامن میں دریا کے سابق گذر گاہ ابھی تک صاف اور واضح نظر آتی ہے۔

تازہ ترین