• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی امور میں ہم سیاست کو ایک شعبہ نہیں پوری اجتماعی زندگی کی نمائندہ قرار دیتے ہیں چنانچہ جب گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ’’مہنگائی کے مزید جھٹکے لگ سکتے ہیں اس لئے عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور مثبت سوچ رکھیں، مہنگائی کم کرنا ہمارا مقصد ہے جو کچھ وقت میں کم ہو جائے گی تاہم مسائل کافی بڑے ہیں جنہیں حل کرنے میں وقت لگے گا، ہماری صورتحال مشکل تھی جس پر ہم نے معیشت کے لئے مشکل فیصلے کئے اور اب صورتحال دن بدن بہتر ہورہی ہے‘‘۔


دوسری طرف ہمارے صائب الرائے دانشور الطاف حسن قریشی اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’یہ فکر حکمرانوں کو بھی ہونی چاہئے جو سیاسی جماعتوں کو اپنے قریب کرنے کے بجائے انہیں احتجاج کی طرف دھکیل رہے ہیں اور وزرائے کرام کے اندیشہ ہائے سودوزیاں سے بالاتر پیغامات معاشرے کو تقسیم کررہے ہیں جو مہذب معاشروں میں استعمال نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں اختلافات مکالمے اور سیاسی رواداری سے رفع کئے جاتے ہیں جو غیر معمولی اہمیت کے معاملات میں فکری ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں‘‘۔ جب اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت ہوں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان خود دھرنا روکنے کے لئے میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے وزیر مذہبی امور کو ٹاسک دے دیا ہے تو یہ سارے واقعات نہ صرف ایک دوسرے سے مشروط ہیں بلکہ تشویشناک ہیں، بہتر ہوگا ہم لفظوں کی شان و شوکت میں مبتلا ہو جانے کے بجائے معاملات کو حددرجہ غور و فکر اور عملی فکرمندی کے طرز عمل سے دیکھنا شروع کریں تاکہ قومی بحران اور عوام کے مصائب میں جو اضافہ ہورہا ہے اس میں کچھ کمی ہوسکے اور ان مصائب کے حل کی کوئی شکلیں سامنے آئیں۔


ہمارا حال تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر اس قسم کے انکشافات سے لذت لی جارہی ہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے 435دن بعد عمران خان صاحب نے دھرنے کا آغاز کیا اور اب جبکہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہوئے 435دن ہو چکے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے کا اعلان کرکے 27اکتوبر کی تاریخ گویا متعین کردی ہے۔ اب معلوم نہیں دانشور حضرات 435دن کی اس یکساں نوعیت کی مدت سے کونسا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں یا ان کے اشارے کس طرف ہیں؟


جب حالات مذاق اور المیے کے ایسے درمیانی مراحل میں ہوں وہاں سنجیدہ اور صائب الرائے لوگوں کی آراء بھک سے اڑ جایا کرتی ہیں، البتہ خود وزیراعظم عمران خان کی یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ آزادی مارچ پر مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کا آپشن کھلا ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں فی الحال کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت نہیں، اہم ایشوز پر بات چیت کے لئے دروازے کھلے ہیں۔ یہ باتیں وزیراعظم نے بھی کہی اور سرکاری ترجمان کی زبان سے بھی کہلوائی گئی ہیں۔ ظاہر ہے سیاسی کشیدگی اس ملک میں جس انتہا پر پہنچ چکی ہے اور بدقسمتی کی بات ہے کہ برسوں بعد عمران خان کے دورِ میں حکومت سیاسی قیدیوں کا وجود ایک بار پھر دکھائی دیا، چنانچہ اس پسِ منظر میں یہ خبر کوئی انکشاف نہیں کہ نواز شریف آزادی مارچ کے ہامی ہیں اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے رابطے کی ذمہ داری حسین نواز کو سونپ دی ہے۔ ظاہر ہے ملک میں سیاسی کشیدگی کی اجتماعی فضا نے ذاتی طبائع میں بھی نفرت اور دشمنی کے بیج بو دیئے ہیں جن کے باعث اب حالات میں انتشار کا اضافہ یقین کی حد تک نظر آنے لگا ہے۔ ادھر عمران خان کی حد تک خود بھی اور ان کے وزراء نے ’’مذاکرات‘‘ کی گنجائش کا پتا پھینکا ہے اور یہ شکر کا مقام ہے کہ ان لوگوں کو اپنے حکمران ہونے کا یہ احساس ہوا کہ بطور حکمران ’’پہل‘‘ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔


ہماری قومی زندگی اور قومی سیاست میں درگزر، صلح جوئی اور حکمت و توازن کے عناصر کی شاید پیدائش ہی نہیں ہو سکی۔ خاکسار کی ایک سوچ یہ بھی ہے، فرض کریں مولانا فضل الرحمٰن کا متوقع دھرنا کامیاب ہو جاتا ہے، وہ عمران حکومت میں ڈینٹ ہی نہیں ڈال دیتے بلکہ حالات اس کو رخصت ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ درمیانی مدت کے انتخابات کا ڈول ڈل جاتا ہے، کیا یہ ملک کی بقا اور جمہوری تسلسل کے فوائد کے لئے سودمند ہوگا؟


عمران حکومت بلاشبہ نواز شریف دور کے ترقیاتی منصوبوں کا کافی معاملات میں بیڑا غرق کرچکی ہے مگر خاکسار ہی کی یہ سوچ بھی ہے کہ اس حکومت کو مدت پوری کرنی چاہئے، یہ لوگ مکمل طور پر اپنی کارکردگی کے توازن کے ساتھ لوگوں کے سامنے آئیں۔ میرا سیاسی اندازہ ہے کہ نتیجہ سیاسی حیرت کا ایک المناک نمونہ ہوگا اور مستقبل میں کم از کم اس جماعت کا برسر اقتدار آنا معجزات کے علاوہ کسی دوسری شکل میں شاید ہی ممکن ہو۔ یہ لوگ سیاسی آزمائشوں اور سختیوں کو برداشت کرنے والے لوگ نہیں ہیں، آپ یقین کریں عمران خان کے جاتے ہی یہ جماعت کاغذ کے اڑتے پرزوں کی شکل اختیار کر سکتی ہے، یہ نون لیگ نہیں جس کا شاید ایک فرد بھی اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکا اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو ہجرتوں اور پھانسیوں کے اثاثوں کے ساتھ اپنی سیاسی ایمانیات کا علم اٹھائے رکھے اور اس موقف سے یک سر مو پیچھے نہ ہٹے کہ ’’آخری قہقہہ غریب کا ہوگا‘‘۔


الٹا مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا عمران کو نئی سیاسی زندگی سے بہرہ ور کر سکتا ہے اور جن لوگوں کے بل بوتے پر یہ لوگ سیاسی میدان میں اترے وہ انہیں دوبارہ انگینج کرنے میں آسانی محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ دوسری سیاسی جماعتوں اور افراد کے لئے کوئی بہتر سودا کاری نہیں ہوگی چونکہ عمران خان اس ملک کی معیشت سے ایک ایسا کھیل کھیل چکے ہیں جس کے بعد پاکستان کی اقتصادیات کا سانس بحال ہونے میں شاید برسوں لگ جائیں، باقی واللہ اعلم بالصواب۔

تازہ ترین