• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں سینیٹ ، قومی اسمبلی کی تمام سیاسی جماعتیں جن میں وفاقی، مذہبی اور علاقائی سیاست کرنے والی تمام پارٹیاں بشمول فاٹا پارلیمانی گروپ سمیت آزاد ارکان پر مشتمل آئینی کمیٹی کے سامنے آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ اور دو سو چھبیس زیر غور آئے۔
تب وزارتِ پارلیمانی امور اور قانون و انصاف کے پورٹ فولیو میرے پاس تھے۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل دو سو چھبیس میں اہلیت کی جو فہرست درج ہے اس کے معیار پر پورا نہ اترنے والا کوئی شخص پارلیمینٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ خاص طور سے آرٹیکل باسٹھ کی ذیلی شق ڈی ، ای ، ایف اور جی زیر بحث رہے۔آرٹیکل تریسٹھ پر بہت سیر حاصل مباحثہ ہو ا چنانچہ آئین میں بہت سارے جمہوری حلقوں کیلئے قابل اعتراض مگر سیاسی جماعتوں کے اردو میں مالکان اور پشتو میں مشران کے لئے قابل قبول A-63کا اضافہ ہواجبکہ آئین کے آرٹیکل دو سو چھبیس کو ساری جماعتوں نے متفقہ طور پر نئے سرے سے مرتب کیا۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، یہ وقت کی آواز ہے کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ،تریسٹھ کو طاقِ نسیاں میں رکھنے کا زمانہ گزر چکا۔ جسے یقین نہ آئے وہ عبوریوں کے آنے کا انتظار کرے جو صرف پچیس دن بعد برسراقتدار ہوں گے۔ ان تین آرٹیکلز کی تفصیل میں جانے سے پہلے، جن کے دور رس اثرات آنے والے انتخابات پر لازماً مرتب ہوں گے۔ آپ کو دو ٹیلی فون کالز کا احوال سناتا ہوں ۔ پہلی کال ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے آئی۔ میں نے پوچھا کہ آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کی روشنی میں کیا آپ مومن و کافر کی فیکٹریاں لگانے لگے ہیں؟ جواب تھا نہیں، میں ان پر عملدرآمد چاہتا ہوں۔ جب یہ آئین میں درج ہیں تو ان سے شرمانا کیسا؟ دوسری کال اقلیتوں کے منفرد رہنما، میرے پرانے محلہ دار جے سالک کی تھی۔ اصرار تھا کہ آرٹیکل دو سو چھبیس کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ جے سالک نے نیا انکشاف یہ کیا کہ آسٹریلیا کے ایک شہری جن کا شناختی کارڈ سینتیس سال بعد بنا وہ اقلیتوں کی نمائندگی کرنے وفاقی کابینہ میں بیٹھتے ہیں۔
یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت ملک کی بڑی بھاری شخصیات اور بعض سیاسی جماعتیں آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کا ذکر سن کر چڑِ جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے کروڑوں ووٹرز اور رائے عامہ کے کچھ بڑے نام ان پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ حال ہی میں الیکشن کے ریفری ادارے نے پینسٹھ سالوں بعد ہی سہی مگر باسٹھ ،تریسٹھ کی آئینی چھلنیوں سے جنرل الیکشن کے امیدواروں کو نکالنے کیلئے میٹنگ بلائی۔ یہ درست سمت کا پہلا قدم ہے، دعا کریں مذکورہ میٹنگ صرف پریس کوریج تک محدود نہ رہے اس کے شریک اداروں پر مشتمل میکنزم جلد قوم کے سامنے آنا چاہئے۔ آرٹیکل باسٹھ کی ذیلی دفعہ ڈی امیدوار سے نہ صرف اچھا کردار مانگتا ہے بلکہ اس سے اسلامی اصولوں کی پاسداری کا تقاضا بھی کرتا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ اس آرٹیکل سمیت کسی بھی انتخابی قانون میں نہ تو اچھے کردار کی کوئی تعریف موجود ہے، نہ ہی اسلامک انجکشن کی متفق علیہ تفصیل۔ آرٹیکل باسٹھ کی ذیلی دفعہ ای میں امیدوار سے تقاضا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مناسب علم رکھے، فرائض کی ادائیگی کرے، کبیرہ گناہوں سے اجتناب برتے۔ ذیلی آرٹیکل ایف صرف اسے امیدوار مانتا ہے جو راست باز، امین ہو، مذہب سے باغی نہ ہو، صاحب دیانت بھی ہو ۔ اس حوالے سے بھی ایک اہم سوال موجود ہے کہ ان اوصاف وشرائط کے معیار کون جانچے گا؟ الیکشن کمیشن؟ صوبائی الیکشن کمشنر؟ انتخابی حلقے کا ریٹرننگ آفیسر؟ قانونی الیکشن اتھارٹی یا اپیلوں کی سماعت کرنیوالا ہائی کورٹ ٹربیونل؟ ان سوالوں کا آسان ، سادہ اور عام فہم جواب ضروری بھی اور بروقت جواب ایک عملی قانونی تقاضا ہے تاکہ انتخابی امیدواروں کے بارے میں اہلیت کی شرائط پر اعتراض با معنی ہوں اور عادی مزاحیہ سیاسی فنکاروں یاانتخابی مہمان اداکاروں کو آئین کا منہ چڑانے کا موقع نہ ملے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ متعلقہ لٹریچر اور ہدایت نامے تین زبانوں میں شائع ہوں۔ عدالتی امور کیلئے انگریزی یا اردو جبکہ ووٹرز کی سمجھ کیلئے معروف علاقائی زبانوں میں۔
آرٹیکل تریسٹھ اس نااہلیت کے تقاضے، شرائط اور وجوہات بیان کرتا ہے جوپارلیمنٹیرین بننے کے خواہشمندوں پر لا گو ہوتی ہیں۔ یہ فہرست بہت لمبی ہے اگر ان پر دیانتدارانہ عملدرآمد ہو ا تو اس آئرن ہینڈ شیک کے ذریعے پارلیمینٹ میں بیٹھنے والوں کی بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ ہو گی۔ پاکستان کے خزانے سے چار سو بیس، نو نمبری اور بنارسی ٹھگی کرنے والوں کا راستہ روکنے کیلئے اگر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت ،ٹیکس ڈیفالٹر امیدواروں کے گلے میں رسی ڈالنے کی ہمت کریں تو پاکستان میں پانچ سالوں کے بجٹ ایڈوانس نکل آئیں گے۔ آرٹیکل تریسٹھ کہتاہے جس نے دو ملین یا اس سے زائد رقم بنکوں، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو باڈی سے اپنے یا بیوی بچوں و اہل خانہ کے نام سے قرض لی پھر مقررہ تاریخ کے ایک سال بعد تک واپس نہ کی یا کسی بھی حربے سے قرض معاف کرا لیا وہ عوامی نمائندگی کیلئے نااہل ہو گا۔ اس وقت تین طرح کے ٹیکس ڈیفالٹرز موجود ہیں۔ ایک جنہوں نے قرض لئے اور سرکلر انتیس جیسے بدنام زمانہ حکم کے تحت واپس نہ کئے، دوسرے وہ جنہوں نے قرض ہتھیائے پھر سرکاری اہلکاروں سے مُک مُکا کر کے فرضی عدالتی کارروائیاں بنا کر قومی خزانے کو مالِ مفت کی طرح لوٹا، تیسرے ڈیفالٹر طبقہ نے پچھلے دس سے بیس سال تک مختلف حیلے بہانوں سے قرض دینے والے اداروں کو مقدمے بازی میں پھانس رکھا ہے۔ راوی کے بقول کھربوں کی ان رقوم پر عشروں لمبے اسٹے آرڈرز چل رہے ہیں ۔بعد ازخرابیٴ بسیار ، وقت آن پہنچا ہے کہ عدالتیں قرضوں پر اسٹے آرڈرز کو ارجنٹ مقدمات سمجھ کر نمٹائیں ورنہ بحیثیت قوم ہم عالمی ڈیفالٹ کی طرف جیٹ اسپیڈ سے بھاگ رہے ہیں اور بظاہر کوئی اسپیڈ بریکر بھی سامنے نہیں۔ اس حمام بلکہ ٹیکس اور قرضوں کے لوٹ مار پروگرام میں بہت بھاری بھرکم ہاتھی شریک ہیں۔
پاکستان میں سرکاری مال کا حساب کتاب ہو یا خوردبرد کا احتساب۔ نہ ختم ہو نے والا المیہ یہی رہا ہے کہ دونوں زبانی جمع تفریق سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادارے بکتے اور لٹتے رہے جبکہ ضابطے و قوانین پٹتے اور منہ دیکھتے رہے۔ اس سے بھی بڑا جاری المیہ یہ ہے کہ عوام بے بس و خاموش اور محکوم تماشائی کا کردار نبھانے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی غریبوں کے دل کے پھپھولے دیکھے تو اسے مونچھوں کو تاوٴ دیکر آنیوالے اقتدار کے ان کرداروں کے بارے میں یہ ضرور سنائی دے گا :
ہمارا خون جھلکتا ہے، ان کے طّروں میں
جدید وضع کے ، پروردگار آئے ہیں
یہ ہم سے پوچھ رہی ہے حیا کی ویرانی
یہ کون لوگ ؟شرافت شکار آئے ہیں
لٹاوٴ پھول کہ اب اذن ِ کاسہ لیسی ہے
کرو سلام انہیں تاجدار آئے ہیں
اب ذکر آرٹیکل دو سو چھبیس کا۔ جس کی روح کو مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے بے رحم ہاتھوں نے مجروح کیا۔ اس میں واضح طور پر لکھا ہے (پاکستان میں تمام آئینی انتخابات ماسوائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے، خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی منعقد ہوں گے)۔ خواتین کیلئے مخصوص ساٹھ نشستیں اور نان مسلم کوٹے کی دس نشستیں متناسب نمائندگی کے تحت سیاسی جماعتوں کو جھونگے میں بانٹی گئیں۔ آئین کے مطابق ملک کے اقتدارِ اعلیٰ کی اکثریت کا فیصلہ ایک ووٹ سے ہو تا ہے۔ سیاسی حاتم طائی کے اس فارمولے کے تحت کسی بھی پارٹی کو نمبر گیم کی برتری دلوانے کیلئے ستّر عدد سیٹوں کا ”طاقتی ٹیکہ“ پاکستانی پارلیمانی جمہوریت کی سب سے بڑی بدمزگی ہے۔ میں خواتین اور غیر مسلم اقلیتوں کی ان نشستوں کو برقرار رکھنے کا حامی ہوں۔آئین کے آرٹیکل اکاون میں اگرچہ متناسب نمائندگی کا ذکر ہے مگر کہیں یہ نہیں لکھا کہ الیکشن کے عمل میں آرٹیکل دو سو چھبیس لاگو نہیں ہو گا۔ اس لئے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتوں کو ملک کے سب سے بڑے ایوانوں میں موٴثر نمائندگی اور بے لاگ آواز اٹھانے کا موقع دینے کیلئے ضروری ہے کہ انکے انتخابی حلقے اسی سائز کے بنائے جائیں جس سائز کے مسلم انتخابی حلقے ہیں تاکہ غریب اقلیتی نمائندے منتخب ہو سکیں۔ خواتین اور غیر مسلم نشستوں پر خفیہ بیلٹ کا آئینی تقاضاابھی باقی ہے۔ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کی فو ری کارروائی آئین میں نہیں، ضابطے میں ترمیمی بل یا آرڈیننس جاری کرکے بھی کی جا سکتی ہے۔
ماضی کے تجربات بتاتے ہیں اسلامی جمہوریہ کا الیکشن بے رحم طاقت ، بے پناہ دولت ، برادری ازم، علاقا ئیت ، لسانیت ، فرقہ واریت اور دہشت کی بیساکھیوں سے جیتا جاتا ہے۔ غریب کو چھوڑئیے، عام آدمی ، لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس طبقہ کی اس عمل میں شرکت محض بھنگڑا ، نعرہ ، جلسہ اور وعدہ تک ہی محدود رہی ہے۔ الیکشن کے ریفری کا اصل امتحان تب شروع ہو گا جب فیئرپلے کا اونٹ طاقت کے اِن پہاڑوں کے نیچے آئے گا۔
تازہ ترین