• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلیجی علاقے میں کشیدگی ختم کرانے کیلئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کار یا سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے ضمن میں وزیراعظم عمران خان کی کاوشیں ابتدائی مرحلے میں ہی مثبت اشارے دیتی محسوس ہو رہی ہیں۔ بدھ کے روز وزیراعظم ہائوس سے جاری بیان اور دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی میڈیا بریفنگ سے واضح ہے کہ تہران اور ریاض دونوں ہی خلیج میں امن کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اتوار 13اکتوبر 2019ء کو تہران کے دورے میں ایرانی صدر حسن روحانی اور رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کر چکے ہیں اور منگل 15اکتوبر کی شام سعودی دارالحکومت پہنچ کر انہوں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے الفاظ میں مذکورہ دوروں کا ماحصل یہ ہے کہ ’’ہم نے اچھا آغاز کیا‘‘۔ ایرانی اور سعودی قیادتوں نے وزیراعظم عمران خان کی امن کوششوں کو سراہا اور خطے میں امن کیلئے آگے بڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ایرانی رہنمائوں کا موقف تھا کہ ’’یمن ایشو‘‘ حل کرنے سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری کا راستہ نکلے گا جبکہ سعودی عرب کے دورے کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ کا میڈیا سے گفتگو میں یہ کہنا تھا کہ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات میں بہتری کے مکینزم پر بات چیت چل رہی ہے۔ اس بیان سے ’عمران امن مشن‘ کے مقاصد میں پیش رفت کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے تہران اور ریاض میں مصالحت کرانے کی درخواست کے علاوہ امریکہ ایران کشیدگی ختم کرانے کیلئے بھی کہا تھا۔ اس وقت امریکہ، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنائو کی جو کیفیت نظر آرہی ہے اس کی پیچیدہ اور مشکل جہتوں کے ادراک کے باوجود عمران خان نے جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے۔ ایک طرف سپر پاور امریکہ ہے جو کئی ممالک پر ایسی مختلف النوع پابندیاں لگا چکا ہے جن کے اثرات دیگر غیر متعلق ریاستوں کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ دوسری طرف تیل پیدا کرنیوالے دو بڑے ممالک ایران اور سعودی عرب ہیں جن کا کسی بحران کی زد میں آنا پہلے سے کساد بازاری کے شکار ملکوں خصوصاً ترقی پذیر اقوام پر خوفناک اثرات کا سبب بن سکتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب 1979ء سے مشرق وسطیٰ میں اثر و نفوذ بڑھانے کی ایک ایسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں جو پچھلے چند برسوں سے روز بروز سنگین تر ہوتی چلی گئی ہے۔ ماضی قریب میں ایرانی تیل بردار جہاز اور سعودی تیل کے کنوئوں پر حملوں کے واقعات نے پورے خطے کے ملکوں کیلئے عدم استحکام کے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس مشکل صورتحال میں مشرق وسطیٰ کے دونوں اہم ملکوں کو قریب لانے اور ایران امریکہ کشیدگی میں کمی کی جو کاوشیں شروع کی ہیں ان کا بیرونِ ملک ہی نہیں اندرونِ ملک بھی خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں موثر شمولیت سے لیکر فلسطینی مسئلے پر بھرپور آواز اٹھانے سمیت ہر اس کوشش میں بین الاقوامی برادری سے بھر پور تعاون کیا ہے جس کے ذریعے اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفظ ممکن ہو۔ کشمیری عوام ہمارے بھائی اور تکمیلِ پاکستان ایجنڈے کا اہم ترین کردار ہیں۔ ان کے سفیر کی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ہر عالمی فورم پر سرگرم ہے جبکہ افغان مسئلے کے پُرامن حل کیلئے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ سب کوششیں وطن عزیز کا وقار بڑھانے اور کشمیر سمیت مختلف امور پر پاکستانی موقف سے دوسرے ملکوں کو قریب تر لانے میں بھی معاون ہو سکتی ہیں۔ اس لئے ایسی تمام کاوشوں میں وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کئے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین