اقوام متحدہ کے ادارہ خوارک و زراعت کے تحت ہر سال 16اکتوبر کو عالمی یوم خوراک منایا جاتا ہے۔ امسال ’’دنیا میں بھوک سے نجات کے لیے صحت مند غذا کی فراہمی‘‘ کو عالمی یوم خوراک کا موضوع بنایا گیا کیونکہ دنیا بھر میں اس وقت پیداوار میں اضافہ کے ساتھ غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ انسانی وجود کی جزئیات کا احاطہ کیا جائے تو غذا انسانی بقا کا اہم ترین جزو ہے۔ انسان نے نت نئے طریقوں سے خوراک کی پیداوار اور دستیابی ممکن بنانے کیلئے زرعی انقلاب سے صنعتی انقلاب تک کا سفر کیا۔ بیسویں صدی میں خوراک کی عدم دستیابی پر عالمی دنیا میں پائی جانی والی تشویش نے 1979ء میں خوراک کے عالمی دن کی بنیاد رکھی۔ خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کے اراکین نے غذائی قلت کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور صحت بخش غذا کی ارزاں دستیابی سے متعلق مسائل پر غور کیلئے 16اکتوبر کو خوراک کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے غذا کی پیداوار میں اضافہ اور غیر منصفانہ تقسیم کا قلع قمع کرنے کے لیے آگاہی اور عملی اقدامات کو ممکن بنانا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بیشمار ترقی کے باوجود دنیا کے کئی خطوں میں صحت بخش خوراک کی پیداوار میں کمی اور ترسیل میں رکاوٹیں بھوک کو جنم دے رہی ہیں اور بیشتر افراد کو دو وقت کی ارزاں غذا کے حصول میں مسائل درپیش ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 795ملین افراد صحت مند غذا کی عدم دستیابی کے باعث مسائل کا شکار ہیں۔ براعظم ایشیا میں غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر کے دیگر خطوں سے قدرے زیادہ ہے۔ صحت بخش غذا کی عدم دستیابی کا سب سے زیادہ شکار معاشرے کے غریب افراد ہوتے ہیں۔ غذائی کمی کے سبب پیش آنے والے مسائل اور ان پر خرچ ہونے والا کثیر سرمایہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ اقوام عالم کی طرف سے ایسی حکمتِ عملی اور پالیسیاں وضع کی جائیں جن کے ذریعے صحت مند غذا کی ارزاں دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2019کی جائزہ رپورٹ کے مطابق خوراک کی کمی کے شکار دنیا کے 119ممالک میں پاکستان 106ویں نمبر پر ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں بھارت 103، بنگلہ دیش 86جبکہ افغانستان 111ویں نمبر پر ہے۔ خوراک میں کمی کی ایک بڑی وجہ غربت کی شرح میں اضافہ ہے جبکہ مہنگائی کے باعث غریب افراد اپنی آمدنی کا 70فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ موجودہ حکومت اہم فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ زیادہ غذائیت اور متنوع زراعت کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور زراعت میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبہ کی بھی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے لیے نئی راہیں کھل سکیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے عہدہ برا ہونے اور غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے بین الاقوامی سطح پر اشتراک عمل انتہائی ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے تحقیق، جدت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے امور کو اولیت دینا ناگزیر ہے۔ پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح غذائی خود کفالت اور غذائیت سے بھرپور خورا ک کی دستیابی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مثبت پیشرفت ہو رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے وژن کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کی قیادت میں حکومت پنجاب مستقل بنیاد پر غذائی خودکفالت کے حصول کے لیے پُرعزم ہے۔ وزیراعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت قریباً 300ارب روپے کے منصوبوں پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے جن کے تحت گندم، دھان، گنا اور تیل دار اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے لیے واضح اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 46ارب روپے کی لاگت سے آبپاش کھالوں کی اصلاح و پختگی کے قومی پروگرام (فیزII) کا بھی آغاز ہو چکا ہے جبکہ پنجاب کے 2019-20کے بجٹ میں زراعت کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 40ارب 76کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم فراہم کی گئی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے نظامِ پیداوار اور فوڈ سسٹم کو ماحول، افراد اور ادارے مل کر تشکیل دیتے ہیں۔ جس میں زرعی مصنوعات کا حصول، ان کی پروسیسنگ اور صارف تک ترسیل کے مراحل شامل ہیں۔ فوڈ سسٹم کا ہر پہلو حتمی طور پر خورا ک کی دستیابی اور دسترس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے غذائیت کو مرکزی اہمیت دے کر فوڈ سسٹم کے لیے پالیسیاں وضع کرنا وقت کا تقاضا ہے ۔
(صاحبِ تحریر ڈائریکٹر ایگریکلچرل انفارمیشن پنجاب ہیں)