• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: جلال چوہدری ۔۔۔ ایڈنبرا
بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ مظالم کے پیش نظر پاکستان اور دیارغیر میں بسنے والا ہر پاکستانی پریشان ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے اس غم اور دکھ کا اظہار کررہا ہے اور آج کل سوشل میڈیا، پرنٹنگ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے شدت سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بھارت میں تیار ہونے والی تمام اشیاء کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ خصوصاً ان ممالک میں جہاں پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں بہت اچھی سوچ ہے، قابل تعریف ہے۔ دانش مند لوگوں کا کہنا ہے کہ دوسروں کے تجربات اور کمزوریوں سے سبق سیکھ کر کوئی قدم اٹھانا اور لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ چہ جائیکہ خودہی اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کوئی سبق حاصل کیا جائے۔ بھارت نے پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ یہ برتائو پہلی ہی دفعہ نہیں کیا اس سے پہلے کئی مرتبہ ایسا کرچکا ہے۔ آخری حادثہ 1971ء کی جنگ ہے۔ جب مشرق پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا تھا۔ آج سے نصف صدی قبل اس وقت میں ایڈنبرا یونیورسٹی میں گریجویشن کے آخری سال میں تھا ان دنوں دولت مشترکہ کے ممالک کے طلبا کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے برٹش کونسل کی طرف سے اسکالرشپ کی بھرمار تھی۔ خود ہماری یونیورسٹی میں دو سو سے زیادہ طبا ایسے تھے جو بھارت اور پاکستان سے آئے تھے ہم سب آپس میں اچھی طرح رہتے تھے کہ اچانک مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی پیدا ہوگئی۔ بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتار دیں اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ اس جنگ کے بعد ہم طلبا میں وہ پہلے والا میل ملاپ نہ رہا تھا۔ بھارتی اور بنگالی آپس میں بہت قریب ہوگئے تھے ہمیں دیکھ کر دور سے راستہ بدل لیتے۔ ہم خود بھی ہندوستانی طلبا سے میل ملاقات سے ہچکچاتے تھے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی ایڈنبرا شہر میں پاکستان سے آئے ہوے طلبا کے علاوہ کوئی سو کےقریب ایسے گھر تھے جو پاکستانی تارکین وطن کے تھے صرف تین چار گھر ایسے تھے جو ہندو تھے اور ہندوستان سے آئے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کیلئے اپنے کلچر سے متعلق اتوار کے روز سوائے ایک ہندی فلم کے، کچھ اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ نہ تھا اور اس فلم کیلئے ہم پورا ہفتہ انتظار کرتے۔ ڈھاکہ کی لڑائی سے پہلے تو ہم لوگ بھی جاتے تھے مگر لڑائی میں جگ ہنسائی کے بعد غیرت نے گوارا نہ کیا کہ ہم اپنے دشمن ملک کی فلم دیکھیں۔ لیکن ہم لوگوں میں سے کچھ افراد ایسے بھی تھے جن کیلئے یہ معمولی بات تھی وہ برابر فلم دیکھتے رہتے۔ ہماری یونیورسٹی کے کچھ پاکستانی نوجوان اکٹھے ہوئے اور انہوں نے ایک پاکستان ایکشن کمیٹی بنائی جس کا کام پاکستان کی بہتری کیلئے کام کرنا تھا اور سب سے پہلا کام ایڈنبرا شہر میں ہندوستانی فلم کو ناکام بنانا تھا اور اسی طرح ہندوستان سے درآمد کی گئی تمام اشیاء کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ سب سے مشکل کام اپنے پاکستانی لوگوں کو ہندوستانی فلم نہ دیکھنے پر راضی کرنا تھا۔ لیکن جواب میں وہ اس کے دفاع میں عجیب قسم کی تاویلیں دیتے۔ گو چند ایک نے ہماری بات مان کر ایڈنبرا میں تو فلم دیکھنا چھوڑ دی تھی مگر اس کی بجائے گلاسگو میں جاکر اپنا شوق پورا کرنا شروع کردیا۔ ہمارے پاس اس مشکل کا صرف ایک ہی حل تھا وہ یہ کہ ہم لوگ بھی اس کے مقابلے میں فلم دکھانا شروع کردیں اور وہ فلم پاکستانی ہو۔ برمنگھم میں سٹراٹفورڈ روڈ پر شاہ جی برادران کا دفتر تھا وہ پاکستانی فلمیں پاکستان سے لاتے تھے اور برطانیہ کے مختلف شہروں میں دکھائی جاتی تھیں ہم نے ان سے رابطہ کیا لیکن ایک تو پاکستانی فلموں کا کرایہ ہندوستانی فلموں کے مقابلہ میں زیادہ تھا دوسرے کوالٹی میں وہ ہندوستانی فلموں کے مقابلہ میں کم تر تھیں۔ مگر حالات کے پیش نظر ہمارے لوگوں نے حب الوطنی کا مظاہرہ کیا اور ایڈنبرا شہر کی حد تک ہم لوگ ہندوستانی فلموں کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اب اس کے بعد دوسرا مسئلہ ہندوستان سے درآمد کی گئی اشیاء کا بائیکاٹ تھا اور حالت یہ تھی کہ تمام ایشین دکانیں ہندوستان سے امپورٹ کئے گئے سامان سے بھری پڑی تھیں اور اس سامان کے خریدار 90فیصد پاکستانی تھے۔ ہماری جدوجہد کی وجہ سے پاکستانی خریداروں نے اس سامان کا کافی حد تک بائیکاٹ تو کردیا تھا۔ مگر معاملہ تھاتازہ سبزیوں کا ان دنوں ایشین سبزیاں صرف ہندوستان ہی سے درامد کی جاتی تھیں اور ان سبزیوں کو درآمد کرنے والوں میں اکثریت پاکستانی تاجروں کی تھی۔ ان تاجروں سے بات کی گئی کہ آپ لوگ تازہ سبزیاں ہندوستان کی بجائے پاکستان سے امپورٹ کریں مگر خاطرخواہ کامیابی نہ ہوئی۔ کوئی تاجر رسک لینے کیلئے تیار نہ تھا آخر میں ایک صاحب تیار ہوگئے وہ مانچسٹر میں رہتے تھے نیک پابند صوم صلوٰۃ تھے تازہ سبزیوں کی امپورٹ ان کا فیملی بزنس تھا۔ ہمت کرکے وہ پاکستان روانہ ہوگئے اور لاہور سبزی منڈی میں ڈیرہ لگادیا وہ وہاں سے مال بھیجتے اور ان کے بیٹے مال کو مختلف شہروں میں تقسیم کرتے۔ ان دنوں ذرائع ابلاغ کا صرف ایک ہی ذریعہ تھا وہ تھا ’’ایشیاء اردو ویکلی‘‘ محمود ہاشمی صاحب اس کے ایڈیٹر تھے اس میں وطن عزیز کی خبریں بھی ہوتی تھیں۔ لوگ ہفتہ بھر اس اخبار کا انتظار کرتے تھے بڑا مقبول اخبار تھا۔ ہم لوگوں نے اس اخبار میں اشتہارات دیئے، آرٹیکل لکھے گئے برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں میں جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے کی مہم جاری کی گئی اور لوگوں کو اپنے وطن سے درآمد کی گئی تازہ سبزیاں خریدنے پر آمادہ کرتے۔ پاکستانی دکانداروں نے بھی تعاون کیا دکان میں اشتہار لگائے کہ ہماری دکان پر سبزیاں پاکستان سے امپورٹ کی گئی ہیں۔ پاکستانی خواتین نے بھی صرف پاکستانی سبزیاں ہی خریدنا شروع کردیں۔ ہندوستان سے درآمدکرنے والے کاروباری لوگ بہت پریشان ہوئے ان کی تجارت آدھے سے بھی کم رہ گئی۔ اس کے مقابلہ میں پاکستانی مال ہاتھوں ہاتھ بکتا رہا۔ دو مہینے تو ایسے گزرگئے پھر کیا ہوا کہ مال کی کوالٹی میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ دو نمبر مال آنا شروع ہوا چند روز تو گھریلو خواتین نے برداشت کیا۔ برابر حب الوطنی کا مظاہرہ کرتی رہیں آخر کب تک اباجی جو پاکستان سے مال بھیجتے تھے۔ برطانیہ میں ان کے بچوں نے ان کو کہا کہ مال بہت خراب آرہا ہے آپ یہاں کیا کررہے ہیں مارکیٹ میں مال کی مانگ کم ہوگئی ہے۔ ان کے ابو وہاں اپنے طور پر پریشان کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اپے آنکھوں کے سامنے مال ٹوکریوں میں پیک کرواتے ہیں اور ان ٹوکریوں کو اسی طرح لاہور ائرپورٹ پر پی آئی اے سے لوڈ کراتے ہیں۔ دوران سفر لندن پہنچنے تک مال ایک نمبر سے دونمبر کیسے ہوجاتا ہے۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جب ابا جی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے جاتے تھے تو ان کی مختصر سی غیرحاضری میں ایک نمبرمال والی کچھ ٹوکریوں کو دونمبر والی ٹوکریوں سے بدل دیا جاتا تھا۔ اباجی ایسے بددل ہوئے اپنا لوٹا مصلا لاہور سبزی منڈی سے اٹھایا اور سیدھے مانچسٹر آگئے۔ کہتے ہیں کہ بھارت کا بنیا جب کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو اس کے مدنظر یہ ہوتا ہے کہ میں نے کاروبار اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے قائم کرنا ہے۔ ایماندار، مال کی کوالٹی، گاہک کے اعتماد کو خصوصی توجہ دینی ہے۔ بھلے ہی آج منافع کم ہو لیکن اس کے پوتے اور پڑپوتے اس سے ضروری فائدہ اٹھائیں گے اور ہمارا حال یہ ہے کہ آنے والی نسلیں جائیں بھاڑ میں ہم نے تو راتوں رات امیر ہونا ہے ہم نے کاروبار نہیں جوا کھیلنا ہے۔ آج کل بھی بھارت اور پاکستان کے حالات کچھ 1971ء جیسے ہیں محب وطن لوگ یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ ہم کو بھارت کی بنی ہوئی اشیاء کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ بڑی اچھی بات ہے ہم نے بھی تو کوشش کی تھی آپ بھی کردیکھیں شاید اب پاکستانی لوگوں کی ذہنیت بدل چکی ہو، گڈلک۔
تازہ ترین