صحرائے تھر ان دنوں اپنی حسین وادیوں اور دل فریب نظاروں کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔اس ریگزار کا اصل حسن اس کےجاذب نظر اور قدیم تہذیب و ثقافت کے حامل گائوں، دیہات اور قصبے ہیں ۔ان کا رہن سہن روایتی اقداراپنی مثال آپ ہیں۔ وہاں ایسے بھی قصبے اور مقامات ہیں جو اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
نگرپارکر کی مشہور کارونجھر پہاڑ یوں کے قریب کاسبو کا قصبہ اپنی زرخیزی اور موروں کی بہتات کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔یہ گائوں جہاں کانٹوں سے بنی طویل و عریض باڑیںسلیقے سےبناکر عام افراد کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، وہ خوب صورت پرندے موروں کی نگری ہے ، یہاں حد نگاہ تک قدرت کے حسن کا شاہ کار یہ حسین و جمیل پرندہ نظر آتا ہے۔
جب صحرائے تھر میں خشک سالی کا عالم ہوتاہے تب بھی اس علاقے میں زیر زمین پانی پر لوگ سال بھرکھیتی باڑی کرکے نہ صرف اپنے اہل خانہ کے پیٹ پالنے کا سامان کرتے ہیں بلکہ اس علاقے کو سر سبز و شاداب رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔تھر کے زیادہ تر کاشت کار کھیتی باڑی کے مشینی ذرائع استعمال کرنے کی بجائے ،آج بھی بیل گاڑیوں کے ذریعے ہل چلا کر اپنی زمینیں کاشت کرتے ہیں تاکہ زمین کی اصل طاقت برقرار رہے، یوں بغیر کھاد دئیے فصلیں تیار ہوتی ہیں ۔ان فصلوں میں پیاز ،مرچ اور بھنڈی شامل ہیں جو شہروں میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔
سندھ بھر کے شہروں خصوصاً کراچی میں کاسبو کی بنا کھاد والی سبزیوں کو لوگ شوق سے منگوایا کرتے ہیں۔گائوںمیں قائم راما پیر کے مندر میں ہر وقت سیاحوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے جس کا خاص سبب وہاں کے مور ہیں ۔کاسبو میں جہاں ہر گھر اور گلیوںمیں مورٹہلتے نظر آتے ہیں وہاں مندر کے قریب بڑے میدان میںبھی یہ محو رقص نظر آتے ہیں۔
علی الصباح مندر کے پجاریوں کی جانب سے میدان میں باجرہ ڈالا جاتا ہےجسے کھانے کے لیے گائوں بھر کے مور آکر جمع ہو جاتے ہیں ۔یہ منظر انتہائی حسین اوردل فریب ہوتا ہے۔ دانا چگنے کے بعدان موروں پر سرشاری کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ ناچنے لگتے ہیں۔ اس وقت موروں کی دل کش آوازیں ماحول کو انتہائی سحر انگیز بنا دیتی ہیں اور سیاحوں پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔یہ منظر صبح کے وقت اور شام ڈھلے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھر کی سیر کے لیے آنے والے سیاح کاسبو آنے کے لیے صبح یا شام کے اوقات منتخب کرتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ گائوں کے نابینا فن کار، استاد محمدیوسف نے بھی کاسبو کے راما پیر مندر کے صحن کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے اور صبح شام تھر کے مقامی گیتوں سمیت قوالیاں اور دیگر صوفیانہ کلام گا کر سننے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔ یوسف فقیر گزشتہ 15سال سے اس مندر میں مقیم ہیں ۔دوردراز مقامات سے آنے والے سیاح ،یوسف کی آواز میں اپنی پسند کے کلام سن کر انہیں داد دیتے ہیں۔ یوسف، مائی بھاگی کے مشہور گیت کھڑی نیم کے نیچےگا کر سندھ کی لوک موسیقی کا حق ادا کرتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے حکومت سندھ کے محکمہ سیاحت و ثقافت نے ایسے گائوں کی پذیرائی کے لئے خاص اقدامات نہیں کئے ہیں جس سے یہاں کے کلچر رہن سہن اوریگر اشیاء کومحفوظ کیاجا سکے۔ضروت اس بات کی ہے کہ کاسبو کے مثالی قصبے کو ثقافتی طور ماڈل ولیج کا درجہ دے کر یہاں زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سمیت سندھی کلچر کو فروغ دیا جائے اور محنت کش لوگوں فنکاروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ ان کی گزر اوقات کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔