خیر و شر،نیکی بدی، اچھائی برائی، اچھا بُرا، محبت نفرت، دِن رات، کالا گورا، عروج زوال، شہرت گمنامی ، یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ صدیوں سے سفر کررہے ہیں، ہم زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح فلموں میں بھی ہیرو اور ولن کی لڑائی بھی دیکھتے رہے ہیں ، ہیرو نیکی کا پیغام دیتا ہے تو وِلن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے۔
پاکستان فلم انڈسٹری میں درجنوں فن کار ہیرو بن کر کام یابی حاصل کرنے آئے، مگر وہ زیادہ پسند نہیں کیے گئے، تو ولن بن گئے اور کچھ فلم اسٹارز نے اپنے کیریئر کا آغاز منفی کرداروں سے کیا اور بعدازاں وہ بہ طور ہیرو فلم انڈسٹری پر راج کرنے لگے۔ پاک و ہند میں کچھ وِلن ایسے بھی ہیں، جنہوں نے فلموں کے ہیرو کے مقابلے میں زیادہ شہرت حاصل کی۔
شہنشاہ جذبات، اداکار محمد علی نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز بہ طور ولن کیا۔ انہوں نے فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ میں منفی کردار نبھایا۔ اس کے بعد ان کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں دال میں کالا، پاکیزہ، بہادر وغیرہ شامل تھیں، لیکن وہ سپرہٹ فلم ’’خاموش رہو‘‘ میں ہیرو کے طورپر سامنے آئے۔
اس کے بعد انہوں نے سیکڑوں فلموں میں بہ طور ہیرو کام کیا۔ پاکستان کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے بھی فلم ’’شیشے کا گھر‘‘میں ولن کی حیثیت سےکام کیا،لیکن وحید مراد کے پرستاروں نے انہیں منفی کردار میں پسند نہیں کیا۔ بعد ازاں وحید مراد نے کسی فلم میں منفی کردار ادا نہیں کیا۔
پاکستان فلم انڈسٹری میں 50برس مکمل کرنے والے ہیرو ندیم نے اپنے طویل کیریئر میں فلم ’’سماج‘‘ میں منفی کردار نبھایا، یہ فلم سپرہٹ ہوئی، لیکن ندیم نے پھر کسی فلم میں منفی کردار ادا نہیں کیا۔
برصغیر میں بننے والی فلموں پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کئی فلموں میں وِلن نے ایسے کردار ادا کیے، جو ناقابل فراموش ہوگئے، جیسے فلم ’’مولا جٹ‘‘ میں مصطفیٰ قریشی نے ’’نوری نت‘‘ کا لازوال کردار ادا کیا۔ اس فلم میں مصطفیٰ قریشی کے ڈائیلاگز بھی بہت مقبول ہوئے، خاص طور پر ’’نواں آیا ایں سونہیا… تیری لت وچوں ٹھک ٹھک نہیں… نوری نت نت دی آواز آوے گی‘‘ فلم شعلے کے ’’گبر سنگھ‘‘ امجد خان کو کون بُھلا سکتا ہے۔
انہوں نے اپنی پہلی ہی فلم میں ’’گبر سنگھ‘‘ کا جان دار کردار ادا کرکے خود کو امر کردیا۔ اسی طرح فلم ’’مسٹر انڈیا‘‘ میں امریش پوری نے ’’موگیمبو‘‘ کا دل چسپ منفی کردار خُوب صورتی سے نبھایا۔ انوپم کھیر، فلم ’’کرما‘‘ میں’’ڈاکٹر ڈینگ‘‘ کے روپ میں خطرناک ولن کے طور پر سامنے آئے اور خُوب شہرت حاصل کی۔
پاکستانی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘سے غیرمعمولی کام یابی حاصل کرنے والے اداکار غلام محی الدین نے کئی فلموں میں منفی کردار نبھائے۔ انہیں فلم ’’کس نام سے پکاروں‘‘ اور ’’ضد‘‘ میں وِلن کے روپ میں بے حد پسند کیا گیا۔ اداکار شاہد نے بھی کئی فلموں میں منفی کردار خُوب نبھائے۔ فلم ’’شبانہ‘‘ میں انہیں منفی روپ میں پسند کیا گیا۔ پاکستان کی لاتعداد اردو اور پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے سپر اسٹار سلطان راہی نے ابتدأ میں چھوٹے چھوٹے کردار کیے، بعد ازاں وہ فلموں میں بہ طور ولن آنے لگے۔ فلم ’’خان چاچا‘‘ میں وہ پاور فل ولن کے روپ میں سامنے آئے، لیکن فلم ’’بابل‘‘ اور ’’بشیرا‘‘ کی غیرمعمولی کام یابی کے بعد انہوں نے منفی کردار نہیں کیا۔ پاکستانی فلموں کے ابتدائی سفر میں اداکار اجمل نے بہ طور ولن شہرت پائی۔
انہیں سب سے زیادہ فلم ’’ہیررانجھا‘‘ میں ’’کیدو‘‘ کے روپ میں پسند کیا گیا۔ فلم ’’ہچکولے‘‘میں بھی ان کی پرفارمنس عمدہ تھی۔ عوامی فن کار کا خطاب پانے والے علائو الدین بھی کئی فلموں میں منفی کردار ادا کیے۔ انہوں نے ولن سے ہیرو تک ہر طرح کے کردار کیے۔ ’’عشق لیلیٰ‘‘، ’’آخری نشان‘‘ اور پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ میں بھی ولن بنے۔ اداکار آزاد بھی ایک اچھے ولن تھے۔ انہوں نے فلم ’’غدار‘‘ اور ’’دربار‘‘ میں عمدہ پرفارمنس دی۔ اسلم پرویز فلموں میں ایسے کردار کرتے کہ خواتین ان سے نفرت کرنے لگتی تھیں۔ اسلم پرویز نے بہ طور ہیرو اپنے کیریئر کا آغاز کیا،درجنوں فلموں میں وہ ہیرو آئے۔ حسن طارق نے فلم ’’نیند‘‘ میں پہلی بار انہیں ولن نما ہیرو کا کردار دیا۔
فلم ’’سہیلی‘‘ میں اسلم پرویز نے درپن اور شمیم آرأ مدِ مقابل بہ حیثیت ولن ناقابل فراموش پرفارمنس دی۔ اس فلم میں ایک جانب بہار بیگم سے محبت کی، تو دوسری جانب نیر سلطانہ کو بلیک میل کیا۔ وِلن کے طور پر اپنی نئی پہچان کے بعد انہوں نے نورجہاں سے لے کر بابرہ شریف تک طویل اننگ کھیلی۔ صبیحہ خانم، مسرت نذیر، شمیم آرأ کے ساتھ ہیرو بھی آئے اور ولن بھی۔ اردو فلموں کے ساتھ چند پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ ایک اور فن کار الیاس کاشمیری نے درجنوں پنجابی فلموں میں منفی روپ اختیار کیا۔’’ بشیرا‘‘ ان کی یادگار فلم ثابت ہوئی۔ ’’بنارسی ٹھگ‘‘ میں عمدہ کردار نگاری کی۔ اسی طرح مظہر شاہ نامی فن کار نے بھی بہ طور ولن اپنی پہچان بنائی۔
ان کے ڈائیلاگز بہت مشہور ہوتے تھے۔ فلم ’’موج میلہ‘‘ میں وہ فن کی بلندیوں کو چھوتے نظر آئے۔ اسد بخاری نے ابتدأ میں اردو فلموں میں ہیرو آئے۔ بعدازاں وہ ولن مشہور ہوئے۔ اسلم پرویز کے بعد مصطفیٰ قریشی بڑے ولن کے طورپر سامنے آئے۔ فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘سے ان کو پہچان ملی۔ وہ منفی کرداروں کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ فلم عندلیب اور آسرا، ان کی قابل ذکر فلمیں ہیں۔ وہ محمد علی کے مدمقابل کئی فلموں میں ولن بنے۔ 1974 میں پنجابی فلم ’’چار خون دے پیاسے‘‘ میں ولن آئے۔ فلم ’’مولا جٹ‘‘ میں ’’نوری نت‘‘ کا کردار ان کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔
یہ وہ دور تھا، جب سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی فلموں کی کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ ان کی جوڑی پہلی بار فلم ’’جیلر تے قیدی‘‘ میں سامنے آئی۔ اس کے بعد تو ان گنت فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ معروف اداکارہ سنگیتا کے سابق شوہر اداکار ہمایوں قریشی نے بھی کئی اردو اور پنجابی فلموں میں ولن کا کردارکیا۔ اداکار شاہنواز گھمن ایک خُوب صورت ولن کے طور پر اسکرین آئے۔ فلم ’’نوکر‘‘ میں انہوں نے سپرہٹ پرفارمنس دی۔ ابتدأ میں سینئر اداکار افضال احمد کچھ فلموں میں بہ طور ہیرو آئے لیکن، وہ ناکام رہے۔ فلم ’’دہلیز‘‘ اور ’’سارجنٹ‘‘ میں منفی کردار میں پسند کیے گئے۔ سینئیر فن کار منور سعید نے تھیٹر اور ٹیلی ویژن کے ساتھ درجنوں فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے شاہد اور شبنم کی سپرہٹ فلم ’’انمول‘‘ میں ولن کے روپ میں عمدہ پرفارمنس دی۔
ادیب نے شوبز کیریئر کا آغاز ممبئی سے کیا ۔ بعدازاں وہ پاکستان آگئے۔ منفی کرداروں کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ فلم ’’عادل ‘‘ میں انہوں نے کمال کی اداکاری کی۔ ٹی وی ڈراموں سے مقبولیت پانے والے فن کار مسعود اختر نے کئی فلموں میں ولن کی حیثیت سے کام کیا۔ فلم ’’سنگدل‘‘ میں ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔ پشتو فلموں کے ،عمردراز، نعمت سرحدی، ساون، طالش وغیرہ نے بھی منفی نوعیت کے کردار کام یابی سے ادا کیے۔ طالش نے فلموں میں جو کردار بھی ادا کیا، اسے یاد گار بنادیا۔
اداکار شفقت چیمہ کو سب سے زیادہ شمیم آرأ نے اپنی فلموں میں کاسٹ کیا اور نت نئے کردار کروائے۔ آج بھی ان کا شمار صف اول کے ولن میں ہوتا ہے۔ شفقت چیمہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 900فلموں میں کردار نگاری کی ہے۔ جیو فلمز اور شعیب منصور کی فلم ’’بول‘‘ میں ان کی پرفارمنس عروج پر تھی۔ شفقت چیمہ ولن کے علاوہ چند فلموں میں بہ حیثیت ہیرو بھی آئے، مگر فلم بینوں نے انہیں ہیرو کے روپ میں قبول نہیں کیا، اس لیے اب وہ ساری توجہ منفی کرداروں پر رکھتے ہیں۔
ابھرتے ہوئے ولن نیر اعجاز کو نئی فلموں میں پسند کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے فلم ’’رانگ نمبر‘‘ ’’زندگی کتنی حسین ہے‘‘ میں یادگار پرفارمنس دی۔ ان کی مقبول فلموں میں چاند گرہن، مجھے جینے دو، لاج، بھائی لوگ، نامعلوم افراد، مور، رانگ نمبر سلیوٹ، زندگی کتنی حسین ہے، ایکٹر ان لاء، مہرالنسا وی لب یو، طیفا ان ٹربل شامل ہیں۔ اب وہ ہر دوسری فلم کی ضرورت بن گئے ہیں۔
راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی کے صاحب زادے علی کاظمی نے کم عرصے میں شو بزنس انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے میرا اور آمنہ الیاس کی مشہور فلم ’’باجی‘‘ میں منفی کردار نبھایا۔ ان کو فلم موٹر سائیکل گرل، لال کبوتر، جوانی پھر نہیں آنی اور نہ بینڈ نہ باراتی میں کافی پسند کیا گیا۔ آج کل وہ فلموں کے ساتھ ڈراما سیریل میں بھی نظر آرہے ہیں۔
اداکار علی خان نے ابتدائی شہرت بھارتی ڈراموں اور بالی وڈ فلموں سے حاصل کی۔ انہیں سب سے زیادہ مقبولیت شاہ رخ خان کی فلم ’’ڈان ٹو‘‘ میں دیوان کے کردار سے ملی۔ فلم انجمن، ماہ میر، ایکڑ ان لاء اور زندگی کتنی حسین ہے، میں انہیں منفی کرداروں میں بہت پسند کیا گیا۔ ’’ایکڑ ان لا‘‘ میں وہ ایسے ولن بنے، جس نے پوری فلم میں ہیرو کو نقصان پہنچایا اور آخر میں جیت ہیرو کی ہوئی۔
نامور اداکار مصطفیٰ قریشی اور روبینہ قریشی کے صاحب زادے، عامر قریشی نے بھی چند چار فلموں میں بہ طور ولن کام کیا، انہیں فلم ’’سات دن محبت ان ‘‘میں ’’کن کٹا‘‘کے کردار میں پسند کیا گیا، جب کہ فلم ’’باجی‘‘ میں وہ پولیس انسپکٹر کے روپ میں بھی سامنے آئے۔
یہ ضروری نہیں کہ فلموں میں منفی کردار ادا کرنے والے فن کار اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایسے ہی ہوں، دیکھا گیا ہے کہ اسکرین پر قابل نفرت کردار ادا کرنے والے فن کار اپنی عام زندگی میں نہایت شریف اور ملنسار ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ہیں، جو سنیما اسکرین پر ہمیں قابلِ نفرت نظر آتے ہیں، یہی حال فلم بینوں کا ہے کہ وہ بھی ان فن کاروں کی بہت عزت کرتے ہیں۔