اسلام آباد / لاہور / فیصل آباد (نمائندگان جنگ / نیوز ایجنسیز) جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کو روکنےکے لیے حکومت نے اقدامات شروع کر دیے اور گرفتاریاں بھی شروع کردیں، شرکاء کو روکنے کے لیے اٹک پل پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے جبکہ پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی گئی۔
بینرز لگانےاور لوگوں کو دھرنے میں شرکت پر اُکسانے کے الزام میں اسلام آباد میں 2 علماء گرفتار کرلیے گئے جنہیں بعد ازاں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
کراچی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکن گرفتار کیے گئے، فیصل آباد میں باوردی جتھہ تشکیل دے کر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے الزام کے تحت مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست موصول ہوئی ہے۔
صوبائی حکومت کو ہدایت دی گئی ہیں کہ کوئی ایسا پوائنٹ نہ چھوڑا جائے کہ شرکاء اسلام آباد میں داخل ہوسکیں۔ وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ میں کنٹرول روم قائم کرنے اور کریک ڈاؤن کی صورت میں موبائل فون سروس معطل کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نےکہا ہے کہ جتھوں کو امن تباہ نہیں کرنے دیں گے، ڈنڈ بیٹھکیں او رمسل ٹیسٹ کرکے احتجاج کے لیے آرہے ہیں یا حملہ آور ہونےکے لیے؟
دوسری جانب وزارت داخلہ نے جے یو آئی کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی عائد کردی ہے اور کہا ہے کہ تنظیم حکومت کی رٹ کو چیلنج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکرانے کی تیاری کررہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کو روکنے کے لیے حکومت نے اقدامات شروع کر دیے، اٹک پل پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے، پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی گئی جبکہ اسلام آباد اور کراچی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن پر مختلف مقدمات بنائے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملانے والے اٹک پل پر کنٹینرز لگانے شروع کر دیے ہیں اور پہلے مرحلے میں کنٹینرز دریائے سندھ اٹک پل کے مقام کے کناروں پر رکھ دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی خاردار تار بھی لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔