اسلام آباد (طارق بٹ) خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد ایک ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس2019ء جاری ہوا جس کے زور پر حراستی مراکز قائم ہوئے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ایک ملامتی فیصلے کے تحت انہیں ختم کر دیا گیا۔ چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس آنسہ مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عالیہ پشاور کی دو رکنی بنچ اپنی ہدایات اور مشاہدات میں کہا کہ مذکورہ آرڈیننس کو عام کیا گیا اور نہ ہی ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس سے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ آرڈیننس نہ صرف وکلاء برادری اور عوام میں زیربحث ہے بلکہ بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے بھی اسے غیرآئینی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث قرار دیا۔ اس بات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے لکھا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دیگر فورمز نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی اور پاکستان کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔