وزیر اعظم عمران خان ایران اور سعودی عرب کا دورہ کر کے وطن واپس آگئے ہیں ، وزیراعظم متعدد مواقع پر اس عزم کا اعادہ کرچکے ہیں کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری کشیدگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ تاریخی و نظریاتی طور پر دو متحارب ممالک کے مابین ثالثی یا سہولت کاری کی پیشکش وہ ایک ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب پاکستان میں خود آگ لگ رہی ہے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کو ایک بار پھر دھرنے کی سیاست کا سامنا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب ہرطرف آگ ہی آگ لگی ہو تو سمجھدار لوگ پہلے اپنے گھر کو محفوظ رکھنے کی تدابیر کرتے ہیں اس کے بعد وہ دوسروں کی آگ بجھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریخی طور پر مڈل ایسٹ کا خطہ عرصہ دراز سے جنگ کی آگ میں جل رہا ہے۔عرب اسرائیل تصادم، ایران اور عراق کے درمیان طویل جنگ ، اس کے بعد عراق کا کویت پر حملہ ، پہلی گلف وار کی تباہ کاریاں ،امریکہ کا عراق پر قبضہ ، داعش کا عروج و زوال، یمن میںحوثی باغیوں کی یلغاراور کردوں کے معاملے پر ترکی کا شام کے ساتھ حالیہ تصادم ، یہ سب واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مڈل ایسٹ کا معاملہ روز بروز بہت گمبھیر اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
اس سے پہلے جب سعودی عرب میں تیل بردار آئل ٹینکرز پر حملہ ہوا تھا اور اس کا الزام ایران پرلگایا گیا تھا تو میں نے تبصرہ کیا تھا کہ مڈل ایسٹ ایک ایسی کھائی میں گرتا جا رہا ہے جس سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں ہے ،
اب جس کا ڈر تھا وہی بات ہوئی ہے کہ ایران نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف جارحیت ہوئی اور اگر کسی نے ایران کی طرف میلی نگاہ سے دیکھا توایران خاموش نہیں رہے گا، بلکہ وہ بھی اس کابھرپور جواب دے گا۔
بطور محب وطن پاکستانی میرے لئے یہ امر نہایت پریشان کن ہے کہ پاکستان کوخطے کی بگڑتی صورتحال سے کیسے محفوظ رکھا جائے جب پاکستان کے ایک بارڈر پربھارت نے اپنی فوجیں لگائی ہوئی ہیں جبکہ افغانستان کے ساتھ دوسرابارڈر روز اول سے ہمارے لئے پریشانیوں کا باعث ہے اوراب اگر ایران کے بارڈر کے پار جنگ چھڑتی ہے تو جنگ کے شعلوں کو پاکستان تک پہنچنے سے کیسےروک سکیں گے؟
پاکستانی عوام کیلئے یہ قبول کرنا بہت مشکل ہوگا کہ ہمارے ایک ایسے ہمسائے ملک کو عالمی سامراج نشانہ بنائے جو سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کرنے والا ملک ہے،
جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیااورمقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی جارحیت کی مذمت میں قرارداد پیش کی، اس کو ایسی نازک صورتحال میں کیونکر تنہا چھوڑ دیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ثالثی یا سہولت کاری کی پیشکش سے قبل ہمیں اپنے دوست ممالک کے قیمتی تجربے اور سمجھ بوجھ سے بھی استفادہ کرنا چاہئے، عالمی منظرنامے میں پاکستان کے اہم ترین قریبی دوست ممالک میں چین، ایران اور ترکی شامل ہیں۔
چین نے دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ کشمیر کا معاملہ ہو یا اقتصادی بحران، پاکستان کو چین کے دروازے ہمیشہ کھلے ملے ہیں، چین نے عالمی سامراج سے اپنے علاقوں ہانگ کانگ اور مکاؤ کی پرامن واپسی کیلئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ، وہ امرقابل تعریف ہے لیکن آج چین کو اندرونی محاذ پر ہانگ کانگ کی ناپسندیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔
اسی طرح اگر پاکستان ترکی کی جانب دیکھے تو وہ بھی کرد جنگجوؤں پر قابو پانے میں مصروف ہے، شمالی شام کے کردوں کا ایشو اپنی نوعیت کا پیچیدہ ترین معاملہ ہے کیونکہ چند دن قبل تک ترک اور کرد دونوں داعش کے خلاف امریکہ کے قریبی اتحادی تصور کئے جاتے تھے، امریکہ نے جس جلدبازی میںشامی کردوں کو بے یار ومددگار چھوڑا، اس نے سویت یونین کی افغانستان سے واپسی کی یادیں تازہ کردیں کہ امریکہ اپنا مطلب نکل جانے کے بعدآنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
ایسی صورتحال میں جب ہمارے یہ تینوںدوست ممالک کسی نہ کسی علاقائی تنازع میں الجھائے جارہے ہیں،پاکستان کو بھی اپنے عوام کا مفاد اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہئے۔وفاقی دارالحکومت پر دستک دیتا لانگ مارچ وسیع پیمانے پر بے یقینی اور افواہوں کا باعث بن رہا ہے،
خود حکومتی حلقوں میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ میرےخیال میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کسی قسم کی محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی،
اگر ہم سعودی عرب اور ایران جیسے کٹر مخالف فریقین کے مابین کشیدگی کم کرانے کی کوشش کرسکتے ہیں تو ہمیں اپنے ہی ہم وطنوں سے گفت و شنید کا راستہ اختیار کرنے میں کیا ہچکچاہٹ ہے؟مولانا فضل الرحمان اور ان کے بھائی مولانا عطا ء الرحمان مفاہمتی سیاست کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ تکبر ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے اور تباہی کا باعث بنتا ہے جبکہ مفاہمت اور گفت و شنیدکا راستہ اپنانے والے ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں،
بالخصوص حکومتی سربراہ اور مذہبی رہنماؤں پراس سلسلے میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میرے ناقص تجربے کے مطابق تمام فریقین کو ملکی حالات اور علاقائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے رویوں میں نرمی لانے کی ضرورت ہے، سیاسی مخالفین کے خلاف طاقت اور نازیبا زبان کا استعمال معاملات کو مزید گمبھیر بنادیتا ہے،
میرا مطالبہ ہے کہ پاکستان کی خاطر اپوزیشن، حکومت دونوںکو ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے باہمی طور پر ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے جو ہمارے حالات میں بہتری لاسکے، پاکستان کو ترقی کی جانب گامزن کرسکے اورمسئلہ کشمیرکا پائیدار حل پیش کرسکے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ آج دنیا میں ہر طرف لگی آگ کو بجھانا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں لیکن ہم سب اپنے اپنے گھر میں لگی آگ پر پانی ضرور ڈال سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)