• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

FATFدنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کیلئے ایک عالمی ادارہ ہے جس کا ہیڈ کوارٹر پیرس میں ہے۔ اس ادارے نے گرے اور بلیک لسٹ مرتب کی ہوئی ہیں جن میں منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ کے خلاف کمزور ریکارڈ رکھنے والے ممالک شامل ہیں۔ 

2017کی واچ لسٹ میں ترکی، لیبیا، میانمار، صومالیہ، وینزویلا اور یمن شامل ہیں۔ پاکستان 2012 سے 2015 تک FATF کی واچ لسٹ میں شامل تھا لیکن بعد میں پاکستان کو اس لسٹ سے نکال دیا گیا مگر 29 جون 2018 کو پاکستان کو دوبارہ گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا۔ 

اس کے علاوہ 22دسمبر 2017کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی پر ایک اسپیشل واچ لسٹ شائع کی گئی جس میں چین، ایران، شمالی کوریا، سوڈان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ پاکستان کا نام بھی شامل تھا جبکہ FATFکی بلیک لسٹ میں اِس وقت صرف شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں۔

گزشتہ سال 24سے 29جون 2018میں پیرس میں ہونے والے FATFکے جائزہ اجلاس جس میں نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے شرکت کی تھی، میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے 27 نکاتی ایکشن پلان 10 ترجیحات کے ساتھ پیش کیا گیا تھا جس پر یکم ستمبر 2018سے 31 اکتوبر 2019 تک وقت دیا گیا تھا اور عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کیا جاسکتا تھا جس سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک میں پاکستان کا رسک پروفائل بڑھ جاتا، پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم کے تبادلے مشکل ہوجاتے، بیرونی سرمایہ کار قانونی خدشات کےپیش نظر پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاروبار سے گریز کرتے، عالمی مالی اداروں سے قرضے مشکل اور مہنگے ہوجاتے جس کی وجہ سے عالمی ریٹنگ ادارے پاکستان کی ریٹنگ میں کمی کرسکتے تھے۔ 

دنیا بھر میں آج کل منی لانڈرنگ قوانین پر عملدرآمد نہ کرنے پر اداروں پر کروڑوں ڈالر جرمانہ کیا جارہا ہے۔ 2017میں ایک معروف پاکستانی بینک کو نیویارک میں بینکنگ سیکٹر کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے 225ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جس کے بعد بینک امریکہ میں اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ 

ہانگ کانگ کی مشاورتی کمپنی کوئنلان کے مطابق امریکی واچ ڈاگز نے اینٹی منی لانڈرنگ کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہ کرنے پر گزشتہ 8برسوں میں 16ارب ڈالر کے جرمانے عائد کیا لہٰذا پاکستانی معیشت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ اس کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہو، اس کیلئے حکومت FATFکے دیئے گئے 26 نکاتی پلان پر عمل کررہی ہے تاکہ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج ہو سکے جبکہ بھارت پاکستان کی کھل کر مخالفت کررہا ہے اور اس نے اعتراض اٹھایا ہے کہ پاکستان نے جماعت الدعوۃ کے امیر کو اپنے منجمد بینک اکاؤنٹ میں سے رقم استعمال کرنے کی اجازت دی۔

13سے 18اکتوبر 2019کو پیرس میں ہونے والے اجلاس میں 206ممالک بشمول امریکہ، چین، برطانیہ، کینیڈا، جاپان، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، یورپی کمیشن اور اقوامِ متحدہ کے نمائندوں اور قانون دانوں نے شرکت کی۔ 

اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر حماد اظہر نے کی اور پاکستان کی جانب سے 27ایکشن پلان پر عملدرآمد رپورٹ پیش کی جس کا ممبر ممالک نے تفصیلی جائزہ لیا۔ 

FATF کے جوائنٹ ورکنگ گروپ (JWG) کے مطابق پاکستان نے 27 میں سے 10شرائط پر عملدرآمد کیا ہے جبکہ FATF کے مطابق 5شرائط پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا گیا ہے اور باقی ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری ہے جس پر حکومت نے عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم دہشتگردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے زیادہ تر مقدمات میں سزاؤں کا نہ ملنا اور موثر اقدامات کیلئے صوبوں اور مرکز کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی نہ ہونے جیسے معاملات پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ 

پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کئی قانونی ترامیم کی ہیں جس میں 24 جولائی 2018 سے اندرون ملک کیش کرنسی کی نقل و حرکت اور اوپن اکائونٹ پر پابندی لگادی گئی ہے۔ 

اسٹیٹ بینک کی افغانستان ڈالر اسمگلنگ روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔ FATF کی شرائط میں بینکنگ نظام اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی قوانین میں تبدیلی، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک میں باہمی تعاون کا معاہدہ اور اس پر عملدرآمد، نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کی بحالی، بینکوں میں بے نامی اکائونٹس کا خاتمہ، اکائونٹ ہولڈرز کی جانکاری (YKC)، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تعاون، ایف بی آر، نیب اور اینٹی نارکوٹکس فورس میں قانونی اصلاحات اور باہمی تعاون، کالعدم تنظیموں جن میں جیش محمد اور القاعدہ بھی شامل ہیں، کے خلاف کارروائی اور اُن کے اثاثوں پر کریک ڈاؤن وغیرہ شامل ہیں۔ 

پاکستان کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، فارن ایکسچینج ریگولیشن، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992کے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی تھیں لیکن FATF کی گائیڈ لائن کے تحت گزشتہ بجٹ میں ان قوانین میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور اب پاکستان سے بینکوں کے ذریعے بیرون ملک فارن کرنسی اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر نہیں بھیجی جاسکتی جبکہ بیرون ملک سے پاکستان زیادہ سے زیادہ 50لاکھ روپے سالانہ بلا اجازت بھیجے جا سکتے ہیں۔ 

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر دبائو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تمام راستے بند کرنے کیلئے دنیا نہایت سنجیدہ ہے۔ چین، ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کی حمایت سے FATF نے پاکستان کو فروری 2020 تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح پاکستان کو FATFکی 27 میں سے باقی 22 شرائط کو پورا کرنے کیلئے مزید 123 دن مل گئے ہیں۔ 

مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے واشنگٹن میں امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ FATF کے معاملے پر تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور پاکستان فروری 2020 تک منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ کی روک تھام کے باقی ایکشن پلان پر عملدرآمد مکمل کرلے گا۔ وزیر اقتصادی امور حماد اظہر پُرعزم ہیں کہ فروری تک حکومت FATF کی باقی شرائط پر عملدرآمد کرلے گی اور ہم گرے لسٹ سے نکل جائیں گے۔ 

حکومت کو چاہئے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر FATF کی باقی شرائط پر عملدرآمد کرے تاکہ FATF کی بے یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔

تازہ ترین