سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر قدیمی و تاریخی اہمیت کی حامل عمارتوں کے باعث پورے ملک میں اپنی ایک الگ و جداگانہ شناخت رکھتا ہے۔ لینس ڈائون برج، سکھر بیراج، سات سہیلیوں کا مزار و دیگر تاریخی مقامات سکھر کی پہچان ہیں ۔ تاہم ان تاریخی و قدیم عمارتوں کے ساتھ ساتھ سکھر کی گرم گودی کے علاقے میں ایک قدیمی اور ملک کی بڑی ریلوے سلیپر فیکٹری بھی موجود ہے۔
جسے براعظم ایشیاء میں سب سے پہلی فیکٹری کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز دور حکومت میں لینس ڈائون برج کے بڑے بڑے حصوں کو آپس میں جوڑنے کے لئے بنائی جانے والی گرم گودی آج سلیپر فیکٹری کہلاتی ہے، جہاں پر یومیہ ایک ہزار سلیپر بنتے ہیں جو کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ریلوے ٹریک کو مضبوط بنانے کے لئے بچھائے جاتے ہیں۔
نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات و دیگر وفود بھی اس فیکٹری کا دورہ کرنے کے لئے سکھر پہنچتے ہیں۔ سلیپر فیکٹری کے حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ماضی میں لوہے کی چیزوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لئے ویلڈنگ نہیں کی جاتی تھی بلکہ بڑے بڑے گارڈرز کو ملانے کے لئے ریورٹنگ کی جاتی تھی جسے ٹھنڈی ویلڈنگ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے لئے بوگیاں بنا کرتی تھیں، جن میں بڑی بڑی چمنیاں ہوتی تھیں، جن کے ذریعے ریل گاڑیوں اور چھوٹے و بڑے پل بنانے کے لئے پلرز اور گارڈرز کو ریورٹنگ کرکے ملایا جاتا تھا۔ 1889ء میں انگریز دور حکومت میں سکھر کے مقام پر تاریخی لینس ڈائون برج کی تعمیر مکمل کی گئی، اس وقت سیمنٹ اور ویلڈنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جن بھٹیوں میں لوہے کو جوڑنے کا کام کیا جاتا تھا، انہیں گودیاں کہتے تھے۔
لینس ڈائون برج کے بڑے بڑے پلرز اور لوہے کے حصوں کو آپس میں جوڑنے کے لئے سکھر میں 2گودیاں بنائی گئیں، ایک کا نام پتھر گودی اور دوسری کا نام گرم گودی رکھا گیا۔ پتھر گودی ریجنٹ پھاٹک کے نزدیک بنائی گئی اور گرم گودی جوکہ ریلوے آفیسرز کلب روڈ کے نزدیک بنائی گئی تھی ،آج سلیپر فیکٹری کہلاتی ہے۔ براعظم ایشیاء میں یہ پہلی گرم گودی تھی جو کہ انگریز دور حکومت میںتعمیر کی گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ لینس ڈائون برج کے لوہے کے بڑے بڑے حصوں کو آپس میں ملانے کے لئے سکھر میں گرم گودی (موجودہ سلیپر فیکٹری) قائم کی گئی تو بے جا نہیں ہوگا۔
آج کی سلیپر فیکٹری اور ماضی کی گرم گودی میں لینس ڈائون برج کے لوہے کے بڑے بڑے حصوں کو آپس میں جوڑا گیا۔ اس وقت گرم گودی میں 600 مزدورخدمات انجام دیتے تھے۔ گرم گودی کا نام تبدیل کرکے سلیپر فیکٹری تو رکھ دیا گیا مگر فیکٹری کے قرب و جوار کا علاقہ گرم گودی کے نام سے مشہور ہوگیا اور آج بھی لوگ مذکورہ علاقے کو گرم گودی کے نام سے ہی پہچانتے ہیں۔ لینس ڈائون برج کی تعمیر کے بعد گرم گودی میں ریلوے ٹریک کی مضبوطی کیلئے لکڑی کے سلیپر بنانے کا کام شروع کیا گیا۔
اس کام میں دیار کی لکڑی استعمال کی جاتی تھی جو کہ سیم و تھور کے علاقوں میں جلد خراب ہوجاتی تھی، پھر آہستہ آہستہ دیار کی لکڑی بھی ختم ہونے لگی اور جدید ٹیکنالوجی کے باعث ویلڈنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تو پھر گرم گودی کی اہمیت کم ہونے لگی، پوری دنیا میں لکڑی کے سلیپر بنانے کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد سیمنٹ (کنکریٹ) کے سلیپر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، جس پر گرم گودی کو سلیپر فیکٹری میں تبدیل کردیا گیا اور 5مئی 1968 کو سلیپر فیکٹری وجود میں آئی، جہاں پر کنکریٹ کے سلیپر بنانے کے لئے امریکا سے پلانٹ منگوایا گیا، جس کے ذریعے سیمنٹ (کنکریٹ) کے سلیپر بننے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت پورے پاکستان میں صرف 4سلیپر فیکٹریاں ہیں، ایک خانیوال، دوسری کوہاٹ، تیسری کوٹری کبیر اور چوتھی سکھر میں ہے تاہم سکھر کی سلیپر فیکٹری سب سے پرانی ہے۔ سکھر کی سلیپر فیکٹری ریلوے سکھر ڈویژن کی انتظامیہ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔اس فیکٹری میں دو شفٹوں میں کام ہوتا ہے، صبح 8بجے پہلی شفٹ شروع ہوتی ہے جو کہ شام 4بجے تک جاری رہتی ہے جس کے بعد دوسری شفٹ شروع ہوتی ہے، ضرورت کے مطابق تین شفٹوں میں بھی کام کیا جاتا ہے۔
سکھر کی سلیپر فیکٹری سے بننے والا سلیپر پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے، لاہور میں واقع ریلوے کے ہیڈ کوارٹر سے سکھر کے افسران کو احکامات دیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ اتنے دن میں اتنا آرڈر تیار کرنا ہے جس کے بعد وہ سلیپر تیار کراتے ہیں۔ اس وقت چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کے تحت گوادر سے اسلام آباد تک کے لئے سلیپر کی تیاری کا کام جاری ہے۔ سلیپر کی تیاری میں ریت، سیمنٹ، بجری اور لوہا تیار ہوتا ہے، بلوچستان کے علاقے مچھ سے بجری منگائی جاتی ہے جبکہ بلوچستان کے ہی علاقے ہرنائی سے ریت آتی ہے۔
ریلوے ورکرز یونین کے ڈپٹی چیف آرگنائزر قاضی نعمت اللہ کے مطابق ایک سلیپر کا مجموعی وزن 548کلو ہوتا ہے، جس میں 116کلو ریت، 78 کلو لارج، 135 کلو اسمال، میڈیم 58کلو، واٹر 41لیٹر، سیمنٹ 120کلو ہوتا ہے، اس کے علاوہ لوہے کی راڈیں الگ سے ڈالی جاتی ہیں۔ فی سلیپر کی قیمت 10سے 12ہزار روپے تک ہے۔ سلیپر کی تیاری کے لئے خام مال کو 4حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، پہلا حصہ لارج، دوسرا حصہ میڈیم، تیسرا حصہ اسمال اور چوتھا حصہ ریت کہلاتا ہے، سلیپر فیکٹری میں ایک جگہ پر الگ الگ چاروں سامان رکھا جاتا ہے، جہاں سے چاروں سامان مخصوص مقدار میں مشین میں جاتا ہے، مشین میں چاروں سامان مکس ہوجاتا ہے، جس کے بعد مذکورہ سامان کو لوہے کے سانچوں میں ڈالا جاتا ہے۔
جہاں پر اسے سلیپر کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے، سلیپر کی شکل میں ڈھلنے کے بعد اسے سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، ایک سلیپر کو سوکھنے میں کم از کم 8گھنٹے لگتے ہیں، سلیپر کے سوکھنے کے بعد اسے چھوٹی ٹرالیوں کے ذریعے فیکٹری کے اس حصے میں لے جایا جاتا ہے جہاں پر سلیپر میں لوہے کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں، سلیپر کی تیاری میں جو لوہا استعمال کیا جاتا ہے وہ اسٹیل لیس ہوتا ہے جو کہ جرمنی سے منگوایا جاتا ہے۔
ایک سلیپر میں 2راڈز ڈالی جاتی ہیں، راڈز ڈالنے کے بعد راڈز کو مضبوط کرنے کے لئے اس پر، نٹ بھی لگائے جاتے ہیں، جس کے بعد اضافی سریے کو کاٹ دیا جاتا ہے اور راڈز ڈالنے کیلئے چھوڑے جانیوالے سوراخ بند کردیے جاتے ہیں، یہ تمام کام کاج چھوٹی و بڑی مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ تیار ہونے کے بعد سلیپرز کی کھیپ مال گاڑیوں کے ذریعے مذکورہ علاقوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
سلیپر فیکٹری میں تیار ہونیوالے سلیپرز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ایک مکمل نیٹ ورک قائم کررکھا ہے، خام مال جب سلیپر کی شکل میں ڈھل جاتا ہے تو پھر اسے ٹرالیوں کے ذریعے مختلف حصوں سے گزارا جاتا ہے، ٹرالیوں کیلئے پٹڑیوں کی طرز پر ایک گزرگاہ بنائی گئی ہے، جس پر ٹرالیاں گزرتی ہیں۔ قاضی نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ سیمنٹ (کنکریٹ) کے بنے ہوئے سلیپر زیادہ دبائو برداشت نہیں کرتے اور ٹوٹ جاتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، سیمنٹ (کنکریٹ) کے بنے ہوئے سلیپر انتہائی پائیدار ہیں، اگر انہیں درست طریقے سے لگایا جائے تو پھر یہ نہیں ٹوٹتے۔ ان کے ٹوٹنے کی وجہ کمزور فٹنگ ہے، بیرون ممالک میں ریلوے ٹریک پر سلیپر بچھانے کے لئے مشینیں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ ریلوے لائن کو اٹھاکر اس کے نیچے سلیپر ڈالتی ہیں۔
لیکن ہمارے یہاں ٹریک کے نیچے سلیپر بچھانے کا کام مینوئل طریقے سے کیا جاتا ہے اور مزدور سلیپر بچھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس جگہ سے پیکنگ کمزور ہوتی ہے سلیپر اس جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ماضی میں سیمنٹ (کنکریٹ) کے سلیپر کے بجائے لکڑی کے سلیپر استعمال کئے جاتے تھے جو کہ دیال کی لکڑی سے بنتے تھے، سیم و تھور کے علاقوں میں لکڑی کے سلیپر جلد ہی خراب ہوجاتے ہیں اور ناپائیدار تھے جبکہ دیال کی لکڑی بھی ختم ہونے لگی تو پھر سیمنٹ (کنکریٹ) کے سلیپر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
ماضی میں لکڑی کے سلیپر بنانے پر جو لاگت آتی تھی، سیمنٹ (کنکریٹ) کے سلیپر بنانے میں اس کے مقابلے میں ایک چوتھائی لاگت آتی ہے اور کنکریٹ کے سلیپر لکڑی کے سلیپر کے مقابلے میں کافی سستے اور پائیدار بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سلیپر فیکٹری میں اس وقت کم و بیش 400ملازمین کام کررہے ہیں، جن میں افسران، انجینئر، مکینک اور لیبر شامل ہیں یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت سکھر سمیت بالائی سندھ کے دیگر اضلاع شکارپور، گڑھی یاسین، ٹھل، کندھ کوٹ و دیگر شہروں سے تعلق رکھتی ہے۔
سلیپرز کس طرح تیار کیے جاتے ہیں؟ یہ جاننے کے لئے ملک کے مختلف شہروں لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں واقع یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات سلیپر فیکٹری سکھر کا دورہ کرنے کیلئے یہاں آتے ہیں نہ صرف ملک سے بلکہ بیرون ممالک نائیجیریا، ویسٹ انڈیز، تنزانیہ، سری لنکا، ایران ودیگر ممالک سے بھی مختلف وفود سلیپر فیکٹری کا دورہ کرنے کے لئے آتے ہیں، جنہیں سلیپر فیکٹری کے افسران سلیپر کی تیاری کے تمام مراحل کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرتے ہیں، سلیپر فیکٹری کا دورہ کرنے کے لئے ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور سے اجازت لینا پڑتی ہے، لاہور سے ہی دورے کا شیڈول بنتا ہے اور افسران کو آگاہ کردیا جاتا ہے ۔یڈ کوارٹر کی اجازت کے بغیر کسی کو سلیپر فیکٹری کا دورہ کرنے نہیں دیا جاتا۔