• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کہانیاں ادھوری رہ جائیں، تو بہت بے چین کرتی ہیں
  • مَیں سونے کے لیے آنکھیں بند کرتا اور تمہاری دو آنکھیں میرے اندر کُھل جاتیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

پولیس والے تیزی سے ہماری طرف لپکے، شاید ہماری کہانی کا اختتام قریب آگیا تھا۔ اتنے میں خانقاہ کاسرکاری ملازم اُن کی طرف بڑھا۔ ’’نہیں جناب، یہ بے چارے تو جوگی فقیر ہیں۔ کل شام ہی یہاں آئے ہیں۔ مَیں خود اوقاف کےمحکمےکا سرکاری ملازم ہوں۔ یہ رہا میرا کارڈ…‘‘ ایک پولیس والے نے کارڈ دیکھا۔ دونوں کچھ نرم پڑگئے۔ ’’ٹھیک ہے، مگر یہ تو تمہارا کارڈ ہے۔ ان دونوں کے شناختی کارڈ کہاں ہیں؟‘‘ ’’ہمارے پاس تو شناختی کارڈ نہیں ہے۔ فقیر کی بھلا کیا شناخت، مفلس کا کیا ٹھکانہ، اگر آپ کو ہمارے یہاں ٹھہرنے پر اعتراض ہے، تو ہم یہاں سے چلےجاتے ہیں۔‘‘ مَیں نے بخت خان کو اشارہ کیا۔ ہم دونوں نےباہر کی طرف قدم بڑھائے۔ پولیس والےنےکڑک کرہمیں روکا۔’’ ٹھہرو… شناخت کے بغیر تونہیں چھوڑ سکتے۔ تھانے چلو، اپنا اطمینان کرکے جلدی چھوڑ دیں گے، بےفکر رہو۔‘‘ ’’اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، مگر تھانے جا کر اپنی شناخت کروانے کا صاف مطلب تھا کہ پھر سے وہی سینٹرل جیل ہمارا مقدّر بن جاتی۔ مجھے قیدکی فکر نہیں تھی۔ یہاں باہر ہم کون سا آزاد تھے، لیکن مہرو کی تلاش مکمل ہونے تک مَیں جیل نہیں جانا چاہتا تھا۔ ایک بار مہرو کو اس کی ماں سے ملوانے کے بعد میرا ارادہ خود کو دوبارہ قانون کے سپرد کر دینے ہی کا تھا۔ اگر میری قضا پھانسی گھاٹ ہی پر لکھی تھی تو اس سے فرار ناممکن تھا۔ مجھے تو بس اتنی مہلت چاہیے تھی کہ جس میں، مَیں اپنا اَدھورا کام پورا کر سکوں۔ پولیس والے ہم دونوں کو دھکیلتے باہر گلی میں لے آئے۔ دُور گلی کے کونے پر پولیس کی چند گاڑیاں اور ایک بڑا ٹرک کھڑا تھا اور بہت سے پولیس والے آس پاس گھروں، دُکانوں کی تلاشی لیتے، آتے جاتے لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارے پہرے دار پولیس والے ہمیں بےضرر جان کر کچھ لاپروا سے ہوگئے تھے اور ہمارے پیچھے باتیں کرتے چلے آرہے تھے۔ اچانک بخت خان ایک جھٹکے سے مُڑا اور اس نے ایک ہی دھکّے میں اپنی دُھن میں چلتے دونوں پولیس والوں کو اس زور سے ٹکر ماری کہ دونوں لڑکھڑائے، جب کہ ایک سپاہی قریبی نالی میں پائوں پھنسنے کی وجہ سے گرپڑا۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم کوئی ایسی حرکت کریں گے۔ بخت خان نے چِلّا کر مجھے ہوشیارکیا۔ ’’بھاگو…‘‘اورہم دونوں گلی کی مخالف سمت سرپٹ دوڑ پڑے۔ چند لمحے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہےمگرجب پولیس والے چونکے تو پھر پوری گلی پولیس کی سیٹیوں سے گونج اُٹھی۔ چاروں طرف شور مچ گیا۔ ’’پکڑو… جانے نہ پائیں… دہشت گرد بھاگ رہے ہیں۔‘‘ عام لوگ ہمیں اپنی طرف دوڑ کر آتے دیکھ کر بدحواس ہوکے اِدھر اُدھر بھاگے، تو پوری سڑک پر ایک افراتفری مچ گئی۔ سڑک پر کچھ گاڑیاں لوگوں کو بچاتے ہوئے آپس میں ٹکرائیں اور مزید سراسیمگی پھیل گئی۔ ہمارے لیے اتنا وقفہ کافی تھا۔ ہم دونوں تیزی سے دوڑتے اندھیری گلی میں مُڑ گئے، لیکن ہمیں راستے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اُس روز مجھےاحساس ہوا کہ اَن جان رستوں پر دوڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ کسی بھی لمحے، کچھ بھی سامنے آسکتاہے، کوئی گڑھا، دیوار، سواری یا کوئی اندھیری گلی… پولیس لگاتار ہمارے پیچھےدوڑ رہی تھی اور کسی بھی لمحےہمارے سروں پر پہنچ سکتی تھی، کیوں کہ وہ ان گلیوں کے چپّے چپّے سے واقف تھی۔

اچانک سامنے دو گلیاں دائیں بائیں نکلتی نظر آئیں، جو آگے چل کر اندھیرے میں گم ہو رہی تھیں۔ بخت خان نے چِلّا کر کہا۔ ’’عبداللہ خاناں! ایسے تو دونوں پکڑا جائے گا۔ تم سیدھا ہاتھ مُڑ جائو… ہم اُلٹے ہاتھ جاتا ہے، زندگی رہا تو پھر ملیں گے نواب پور میں۔‘‘ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا، نہ ہی سوچنےکاوقت۔ ہم ایک ہی کمان سےنکلے دو تیروں کی طرح گلی کےسرےتک پہنچے اور پھر دائیں بائیں مڑگئے، کچھ لمحوں تک مجھے پیچھے سُنسان گلی میں بخت خان کے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دیتی رہی اور پھر پولیس کی چیخ و پکار میں سب گڈمڈ ہوگیا۔ یہ کوئی بہت گنجان آباد علاقہ تھا اور گلی دَر گلی، کوچہ دَر کوچہ راستے نکلتے ہی جا رہے تھے، مَیں پتا نہیں کتنی ویران اندھیری گلیوں میں بھاگتا رہا اور پھر اچانک ایک گلی کے سِرے سے باہر نکلتے ہی مَیں نے خود کو کسی بڑی سڑک پر کھڑے پایا۔ مَیں نےروشنی میں آتے ہی خود کو سمیٹا اور معمول کی رفتار سے ایک جانب چلنا شروع کردیا۔ سڑک پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی، چند کھانے پینے کی دُکانیں، اِکّا دُکّا میڈیکل اسٹور وغیرہ کُھلےتھے۔ بڑے شہروں کی ایک خاصیّت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہاں کوئی کسی سے کوئی سروکار نہیں رکھتا، بھیڑ میں سب اَجنبی ہوتے ہیں۔ مَیں بھی انہی اَجنبیوں کے درمیان چلتے اپنے دوست، اپنے آشنا بخت خان کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا رہا، مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ دِل سے بے اختیاردُعا نکلی کہ اے کاش! وہ پولیس کے ہتھے نہ چڑھے۔ اتنے دن ہم دونوں ساتھ ساتھ تھے، مگر ہم دونوں نے ایک دُوسرے کو اپنی بپتا تک نہیں سُنائی تھی، لیکن میں جانتا تھا کہ بخت خان کو اپنے علاقے،جسےلوگ علاقۂ غیر کہتے ہیں، کوئی اَدھوری کہانی پوری کرنےجاناہے۔ کہانیاں اَدھوری رہ جائیں تو بہت بےچین کرتی ہیں۔ میری اپنی کہانی بھی تو اَدھوری تھی۔ کیا ستم ہے کہ ہماری کہانیاں ختم نہیں ہوتیں، ہم البتہ ختم ہو جاتے ہیں، تو پھر کیا کوئی دُوسرا آ کر کبھی ہماری اَدھوری کہانی پوری کرےگا؟ قدرت کبھی کوئی کام اَدھورا نہیں چھوڑتی۔ ہم سب کی کہانیوں کو بھی ایک نہ ایک دِن پورا ہونا ہی ہوگا۔ مَؐیں اپنی سوچوں مَیں گم طویل سڑک پر چلتا رہا۔ رات بھیگ رہی تھی اورسنّاٹابڑھتاجارہا تھا۔ اور ایسےسنّاٹے میں گھومنا بھی میرے لیے خطرناک ہو سکتا تھا، کہیں بھی پولیس میرا راستہ روک سکتی تھی، کیوں کہ شریف شرفا راتوں کو گھر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ پیدل چلنے والے مجھ جیسے تنہا کو ان کی لغت میں آوارہ گرد کہا جاتا ہے۔

سڑک پر تھوڑے وقفوں کے بعد بجلی کے کھمبوں سے لگی اسٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں۔ یوں وہ تنہا سڑک دُور تک بچھی نظر آرہی تھی۔ فضا میں اب صرف میرے قدموں کی آواز باقی رہ گئی تھی۔ ذہن میں ایک پرانی غزل گونجنے لگی؎ ’’اَجنبی شہر کے اَجنبی راستے… میری تنہائی پر مُسکراتے رہے… مَیں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا… تم بہت دیر تک یاد آتے رہے…‘‘ یاد تو وہ آتے ہیں، جنہیں ہم وقت کے کسی درمیانی وقفے میں ذرا دیر کے لیے فراموش کر دیتے ہیں۔ اُنہیں کیا یاد کیا جائے، جنہیں ہم کبھی بھولتے ہی نہیں، جو اِک لمحے کے لیےدِل و دماغ سے محو نہیں ہوتے کہ ایسی کیفیت کے لیے تو ’’یاد‘‘ بہت معمولی، چھوٹا سا لفظ ہے۔ پھر وہی انسانی ڈکشنری کی مجبوریاں، شاید مجھ جیسے دیوانوں کے لیے یہ لُغت ہمیشہ اَدھوری ہی رہے گی۔ میرے اندر شور بڑھتا جارہا تھا اور رات خاموش تر تھی، لیکن مجھے بہت جلد رات گزارنےکےلیےکسی ٹھکانے پر بھی پہنچنا تھا۔ اچانک موڑ مڑتے ہی دُور مجھے کسی اسپتال کا برقی نشان جگمگاتا نظر آیا۔ ذہن میں فوراً جیل میں کہی ظہیر کی بات گونجی، ’’کسی بھی شہر میں رات کو چُھپنے کے دو ہی بہترین ٹھکانے ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن یا اسپتال… دونوں ہی جگہ ساری رات لوگوں کا آنا جانارہتا ہے اور دونوں جگہوں پر کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔‘‘ مَیں تیز قدموں سے چلتا اسپتال کے گیٹ سے اندر داخل ہوگیا۔ یہ کوئی پرائیویٹ اور منہگا اسپتال تھا۔ سامنے ہی ایمرجینسی میں کچھ ہل چل سی تھی۔ ایک جانب راہ داری میں کچھ پرائیویٹ گارڈز کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ مَیں اُن کے دیکھنے سے پہلے ہی بائیں راہ داری میں مُڑ گیا۔ مجھے جنرل وارڈ یا کسی کینٹین نما کیفے ٹیریا کی تلاش تھی، جہاں مَیں عیادت کرنے والے لوگوں کے درمیان خود کو چُھپا سکوں۔ مگر اُس طرف بھی سنّاٹا تھا۔ شاید اُونچے طبقے والوں کے لیے پرائیویٹ کمرا نما وارڈز بنائے گئے تھے۔ غریب اور امیر کی یہ تخصیص یہاں بھی واضح تھی اور صرف اس اسپتال پر کیا منحصر، یہ فرق تو غریب اور امیر کی پیدائش سے لے کر قبر تک برقرار رہتا ہے۔ میرا حُلیہ اُس چمکتی راہ داری اور منہگے کمروں سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس لیے قریب سے گزرنےوالی ایک دو نرسوں اور طبّی عملے نےمجھےحیرانی اور غور سے دیکھا، مَیں نے پلٹ کر نکلنا چاہا، مگر اُسی وقت راہ داری کے سِرے پر دُور وہی دو باوردی، مسلّح محافظ نمودار ہوئے، جنہیں میں نے باہر دیکھا تھا۔ اچانک سامنے والا دروازہ کُھلا اور ایک نرس باہر آئی۔ ایک لمحے کے وقفے ہی میں، مَیں نے دیکھ لیا کہ اندر نیم تاریک کمرے میں کوئی مریض سو رہا ہے اور کوئی اٹینڈنٹ کمرے میں موجود نہیں۔ نرس ایک جانب بڑھ گئی اور مَیں گارڈز سے بچنے کے لیے تیزی سے اُسی کمرے میں داخل ہوگیا۔ مَیں صرف گارڈز کے آگے نکل جانے تک کمرے کےدروازے کے پیچھے کھڑا ہو کے انتظار کرنا چاہتا تھا تاکہ ان کے آگے نکلتےہی واپس اُسی راستے پر چل پڑوں، جو مجھے غلطی سے یہاں تک لے آیا تھا۔ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ نرس واپس کمرے میں نہ آجائے، ورنہ میرے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو جاتی، مگر گارڈز کو راستے ہی میں کسی نے روک لیا اور وہ وہیں راہ داری ہی میں کھڑے ہو کر بات کرنے لگے۔ مجھ پر ایک ایک لمحہ صدی بن کر گزر رہا تھا۔ اچانک پیچھے سےمریض کے کراہنے کی آواز سُنائی دی۔ اُسے شاید پانی چاہیے تھا۔ مَیں اُس کی دُوسری آواز پر خود کو روک نہیں پایا اور ساتھ پڑی چھوٹی میز پر رکھی پانی کی بوتل سے گلاس میں پانی اُنڈیلا اور تبھی مریض کا چہرہ دیکھتے ہی میرے ہاتھ سے پانی چھلک گیا۔ مَیں اُس کاچہرہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ حالاں کہ میں اُسے سات سال بعد دیکھ رہا تھا، جب کہ بیماری اور نقاہت نے اس کے خدّوخال تک لاغر کر دیئے تھے، مگر پھر بھی اُسے پہچاننے میں مجھے ایک لمحہ نہ لگا۔

وہ سِڈ تھا۔ ہاں، وہی سِڈ، جس کے ہاتھ سے گولی چلنے سے خود اُسی کا دوست سَنی مارا گیا تھا۔ وہی سَنی،جس کےقتل کےالزام میں مجھے پھانسی کی سزا سُنائی گئی اور میرے سات سال، جیل کی کال کوٹھری میں اپنی موت کا انتظار کرتے گزرے تھے۔ لیکن سِڈ یہاں اس اسپتال میں اور اس حالت تک کیسے پہنچا۔ میرے ذہن میں دھماکے سے ہو رہے تھے۔ دِل میں سلطان بابا کی وہی بات گونجی۔ ’’جب جب جو جو ہونا ہوتا ہے، تب تب سو سو ہوتا ہے۔‘‘ گویا مَیں راستہ بُھول کر اس طرف نہیں آ نکلا تھا۔ میرے لیے یہی راستہ طے کردیا گیا تھا۔ جیل جانے سے لے کر پھانسی کی کال کوٹھریوں تک، کرم داد کی کوٹھی میرے حصّے میں آنے سے لے کر جیل سے فرار تک، حکیم یعقوب کے گھر سے مہرو کے گائوں رحیم گڑھ تک، بالے کے ڈیرے سے چندا کے ٹھکانے تک اور پھر… اُس خانقاہ سے اسپتال کے اس کمرے تک۔ سب پہلے سے طے ہی تو تھا، جانے مَیں مہرو کی تلاش میں اِن راستوں پر بھٹکتےیہاں تک پہنچا تھا یا پھر مہرو کی تلاش کے بہانے یہ راستے مجھے چلاتے ہوئے یہاں تک لے کر آئے تھے۔ جہاں سِڈ اس بستر پر نڈھال پڑا تھا۔ مَیں نے پانی کا گلاس اُس کے ہونٹوں سے لگایا، تو اس نےآنکھیں کھول دیں اور ایک اَجنبی کو اپنے سرہانے کھڑے دیکھ کر گھبرا گیا۔ ’’تم… کون ہو؟ میری اٹینڈنٹ کہاں ہے…؟‘‘ مَیں نے اطمینان سے اسے پانی پلایا، ’’مجھے بھی تم ایک اٹینڈنٹ ہی سمجھ لو۔ میرا اِرادہ سات سال پہلے بھی تمہیں نقصان پہنچانے کا نہیں تھا، آج بھی نہیں ہے۔‘‘ سِڈ میری بات سُن کر بُری طرح چونکا… ’’کون ہو تم… اور یہاں کیسے آئے…؟‘‘ اُس نے بستر کے ساتھ لگی گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا،مگر پھرمیری صُورت میں جانے کون سی آشنائی کی رَمق دیکھ کرہاتھ روک لیا۔ میری بڑھی ہوئی داڑھی اور لمبی لٹوں کے پیچھےچُھپی میری آنکھیں شاید ابھی تک نہیں بدلی تھیں۔ سِڈ کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’تم… تم تو وہی ہو ناں… ساحر۔‘‘ اُس نے مجھے پہچان لیا تھا۔ ’’ہاں، مَیں وہی ہوں، جسے تم نے قتل کے جھوٹے مقدمے میں اُلجھا کر پھانسی کے تخت تک پہنچایاتھا‘‘ سِڈ ہکلایا۔ ’’مگر تم… تم یہاں کیسے؟ اوہ گاڈ! مَیں تو سمجھا تھا کہ اُنہوں نے تمہیں پھانسی…؟‘‘ ’’نہیں…ابھی زندہ ہوں اور جب تک سانسیں باقی ہیں، کوئی قانون مجھے مار بھی نہیں سکتا۔‘‘ سِڈ نے غور سے میری طرف دیکھا، ’’تو کیا تم مجھ سے بدلہ لینے آئے ہو۔ ہم نے واقعی تمہارے ساتھ بڑا ظلم کیا۔ اُس رات جب ہاتھا پائی میں تم نے میرے ہاتھ سے پسٹل چھیننے کی کوشش کی تھی اور مَیں اپنا ہاتھ چُھڑوانے کی کوشش کررہا تھا، مجھےتبھی محسوس ہوگیا تھا کہ میری اُنگلی کے دبائو سے ٹریگر دَب گیا ہے۔ وہ فائر مجھ ہی سے ہوا تھا، جس نے سَنی کی جان لی، مگر مَیں سچ نہیں بول پایا۔ بولنا چاہتا بھی، تو میرے ڈیڈ، گھر والےکبھی نہ بولنے دیتے، کیوں کہ سَؐنی کے پاپا بہت پاورفل اور اہم منسٹری کےہیڈ تھے۔ میرا خاندان اُن سے کسی قسم کی دُشمنی افورڈ نہیں کر سکتا تھا، لیکن آج تم آزاد ہو، مجھ سےبدلہ لے سکتے ہو۔‘‘ ’’مَیں یہاں تم سے بدلہ لینے نہیں آیا۔ قدرت نے جانے کیوں مجھے یہاں پہنچایا ہے۔ مجھے بس کچھ دیر پناہ چاہیے۔ صبح ہوتے ہی چلا جائوں گا۔ اگر تم پناہ دے سکو تو ٹھیک، ورنہ مَیں کسی اورطرف نکل…‘‘ میری بات لبوں ہی پر رہ گئی اور ایک نازک سی لیڈی ڈاکٹر اُسی نرس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بے دھیانی میں بولی۔ ’’واٹ اِز دِس سِڈ… یہ اسٹاف بتا رہی ہے کہ…‘‘ اور پھر مجھے سِڈ کےسرہانےکھڑےدیکھ کربالکل ہی حواس باختہ ہوگئی۔ ’’اوہ گاڈ… ہو اِز دِس… یہ کون ہے اسٹاف… اور اندر کیسے آیا… یہ ہاسپٹل ہے یا کوئی بیگرہوم…‘‘ حسب ِتوقع وہ مجھے کوئی ملنگ، فقیر ہی سمجھی تھی۔

اسٹاف تیزی سے میری طرف بڑھی۔ ’’نکلو بابا تم اِدھر سے… تم کو اندر کس نے آنے دیا…؟‘‘ لیڈی ڈاکٹرچلّائی، ’’گارڈز کو بلائو…ویئر آر دے سلیپنگ؟‘‘ مَیں خاموش کھڑا رہا۔ سِڈ نے ہاتھ اُٹھا کر لیڈی ڈاکٹر سے کہا۔ ’’کام ڈائون سونیا… ہی اِز مائی گیسٹ… یہ میرا پرانا دوست اور کلاس فیلو ہے۔‘‘ سونیا نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے میری طرف یوں دیکھا، جیسے اسے سِڈ کی دماغی حالت پر شُبہ ہو۔ ’’واٹ… آر یو اِن یور سینسز… یہ تمہارا دوست اور کلاس فیلو… شاید تم حواسوں میں نہیں ہو سِڈ۔‘‘ سِڈ نے سونیا کو ڈانٹا۔ ’’مَیں نےکہاناں یہ میرا دوست ہے اور پلیز… اب تم دونوں جائو یہاں سے۔ آئی ایم اوکے… اور اسپتال کے رُولز کے مطابق میرے کمرے میں ایک اٹینڈنٹ رُک سکتا ہے ناں، تو آج رات میرا یہ دوست ہی میرے پاس رُکے گا۔‘‘ سونیا نے غصّےسے پہلے سِڈ کو اور پھر میری طرف دیکھا اور دوبارہ انگریزی میں سِڈ سے بولی، شاید وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں اُس کی بات کا مطلب سمجھوں۔ ’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو سِڈ، کون ہے یہ بھکاری اور اتنی رات کو چُھپ کر تمہارے کمرے میں کیوں آیا ہے؟ دیکھو اگر تمہیں اس سے کوئی خطرہ ہے، تو اُردو میں بس اتنا کہو کہ جائو، ہم دونوں کے لیے اچھی سی کافی بھیج دو۔ مَیں سمجھ جائوں گی اور باہر جا کر گارڈز کو بتا دوں گی۔ وہ خود آکر اسے قابو کرلیں گے۔‘‘ سونیا کی چالاکی پر سِڈ نےمیری طرف دیکھا۔ ’’یہ میری کزن بھی ہے، بدقسمتی سے۔ یہ یوں نہیں مانے گی۔ پلیز، تم ہی اِسے مطمئن کردو۔‘‘ اس بار مَیں نے سونیا کو انگلش میں جواب دیا۔ ’’مَیں اس طرح اچانک آنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مَیں کسی کی پرائیویسی میں دخل اَنداز نہیں ہونا چاہتا، اگر آپ کو واقعی لگتا ہےکہ مَیں سِڈ کو ڈسٹرب کر رہا ہوں تو مَیں چلا جاتا ہوں۔ آپ خود کو کسی اُلجھن میں نہ ڈالیں۔‘‘ سونیا اور نرس دونوں کے منہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے۔ سونیا نے نرس کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ پھرجاتےجاتے ایک لمحہ رُک کر بولی۔ ’’آپ دونوں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں بھجوا دوں گی۔‘‘ ’’نہیں… آپ کا بہت شکریہ۔‘‘ سونیا نے جاتے جاتے بھی پلٹ کرایک بار پھرحیرت سےمیری طرف دیکھا۔ اُس کے جانے کے بعد سِڈ نے میرے حلیے کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔ مجھے تمہاری لگژری کار اور نفاست ابھی تک یاد ہے، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو تمہیں ہرگز نہ پہچانتا، مگر مَیں نے اُس رات تمہاری یہ آنکھیں بہت قریب سےدیکھی تھیں، اور آج تک اِنھیں بُھلا نہیں پایا۔ کئی راتوں تک جب میں سونے کےلیے آنکھیں بند کرنے لگتا تو تمہاری یہ دو آنکھیں میرے اندر کہیں کُھل جایا کرتیں۔ راتوں کو خواب میں آ کرمجھےجگا دیا کرتیں…مگر تم نے یہ جوگیوں والا بھیس کیوں بنا رکھا ہے،جیل سے کب چُھوٹے تم؟‘‘ سِڈ کی لاعلمی بتا رہی تھی کہ اُسے باہر کے حالات کی کچھ زیادہ خبر نہیں۔ ویسے بھی یہ امیرزادے بھلا اخبار وغیرہ کب پڑھتے ہیں۔ ’’مَیں جیل سے چُھوٹا نہیں… فرار ہوا ہوں اور پولیس اِس وقت میری تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔‘‘ میراجواب سُن کرسِڈ اُچھل پڑا۔ ’’اوہ گاڈ! رئیلی… معاف کرنا۔ پچھلے کچھ مہینوں سے میں ساری دُنیا سے کٹ کر رہ گیا ہوں۔ مجھے واقعی کسی بات کی خبر نہیں۔‘‘پھرکچھ سوچ کراس نے پوچھا۔ ’’اور وہ لڑکی… وہ جو اُس رات تمہارے ساتھ تھی… اُس کا کیا ہوا؟‘‘ وہ زہرا کا پوچھ رہا تھا۔ ’’وہ بھی بچھڑ گئی مجھ سے… اُس کے گھر والے ایک قاتل، پھانسی کے قیدی کے ساتھ مزید کوئی رشتہ نہیں رکھناچاہتے تھے۔‘‘ سِڈ نے بہت تاسّف سے میری طرف دیکھا۔ ’’اوہ… مطلب تمہاری زندگی کی ہر بربادی صرف ہماری وجہ سے اُسی ایک رات میں ہوگئی۔ کاش… کاش مَیں وہ وقت واپس لا سکتا… سُنو، ان سب کے باوجود تم مجھ سے بدلہ کیوں نہیں لےرہے۔ مَیں بے بس، لاچار تمہارے سامنے پڑا ہوں۔‘‘ مَیں نے سِڈ کی طرف دیکھا۔ ’’اگر مَیں پہلے والا ساحر ہوتا تو شاید کچھ بھی کر جاتا۔ تمہیں بھی تباہ و برباد کر دیتا، لیکن ایک بزرگ نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اپنا ہر معاملہ، ہر بدلہ اللہ پر چھوڑ دو۔ وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے، لہٰذا اب مَیں نے بھی اپنا ہر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ جو کرے گا، میرے لیے بہتر کرے گا۔‘‘

میری بات سُن کر سِڈ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ’’واقعی۔ ٹھیک کہا تھا تمہارے بزرگ نے۔ وہی بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ تمہارے ساتھ بُرا کرنے کے بعد مَیں اور کاشی بھی ایک پل چین سے نہیں رہے۔ اس کے ڈیڈ نے اُسے ملک سے باہر بھیج دیا تھا، اُس کیس سے بچنے کے لیے، مگر کون سی رات ہے، جب وہ مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے رویا نہ ہو۔ سَنی بہت پیارا دوست تھا ہمارا۔ سب کچھ بکھر گیا، اُس کے جانے کے بعد۔ اور جانتے ہو، مَیں آج اس اسپتال کےبستر پر کیوں پڑا ہوں؟ بلڈ کینسر ڈائیگنوز ہوا ہے مجھے۔ مَیں اپنی زندگی کے آخری دن گِن رہا ہوں یہاں پڑے پڑے۔ دیکھو، کیسی بے بسی ہے میرے چاروں طرف… ہم نے تمہیں کیس میں پھنسا کر موت کے پھندے تک پہنچانے کی کوشش کی، مگر تم میرےسامنے سلامت کھڑے ہو… اور مَیں تم سے پہلے جا رہا ہوں۔ سِڈ کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی دروازےپر آہٹ ہوئی، میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین