پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین ریاض فتیانہ نے کہا ہے کہ ایف بی آر نے چینی کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا ہے، یہ سرکاری خزانے پر ڈاکا ہے اور کسی کو نوازنے کی کوشش ہے۔
جنید اکبر خان کی زیرِ صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی نے ہدایت کی کہ چینی کے معاملے پر غور کے لیے ایف بی آر کو آئندہ اجلاس میں طلب کیا جائے۔
اجلاس کے دوران نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں بغیر منظوری کے 5 ارب 63 کروڑ کے اخراجات کا انکشاف سامنے آیا۔
اس پر وزارتِ آئی ٹی کے حکام نے بتایا کہ اخراجات کو ہم نے وزارتِ خزانہ سے ریگولرائز کروایا ہے، اگر اخراجات نہ کیے جاتے تو آئی ٹی اور ٹیلی کام کا کام رک جاتا۔
ممبر کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کا اندرونی آڈٹ بھی کمزور ہے، پچھلے کئی سال میں این ٹی سی نے اپنا انٹرنل آڈٹ ہی نہیں کیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ23-2022 میں سی ایف او کی جانب سے 4 ارب 68 کروڑ جاری کیے گئے، سی ایف او کا اضافی چارج ڈائریکٹر فنانس اور بجٹ کو سونپا گیا تھا، 4 ارب68 کروڑ روپے کے اخراجات کرنے کے سی ایف او کے اختیارات نہیں تھے۔
ممبر کمیٹی ثناء اللّٰہ مستی خیل نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ایس او ایز خسارے میں کیوں ہیں، اسی وجہ سے ہی ہیں، عزت مآب ممبران پارلیمنٹ غدار ہیں، ان سے ملک کو خطرہ ہے۔
اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہر بیوروکریٹ یہی کہتا ہے مجھ سے پہلے والے نے یہ کام کر دیا۔
ممبر کمیٹی سید نوید قمر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس کو جو کام کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا، سب سے پہلا کام یہ تھا کہ جو ذمہ داران ہیں ان کا تعین کیا جائے، یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کسی کی غفلت تھی یا جان بوجھ کر کیا، سارے اداروں کو ڈسپلن میں لانا ہوگا، کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے اجلاس کے دوران کہا کہ تین سال میں این ٹی سی میں انٹرنل آڈٹ کیوں نہیں کیا گیا؟
بعد ازاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایک ماہ میں ذمہ داران کے تعین کی رپورٹ طلب کر لی۔