• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کو پروگرام کے مطابق آج 31؍اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنا ہے جمہوری نظام میں افراد کو انفرادی و اجتماعی طور پر اپنے جذبات اور نقطہ نظر کے اظہار کی آزادی حاصل ہوتی ہے تاہم ہر آزادی اپنے ساتھ ایسی پابندیاں بھی لاتی ہے جنہیں احساس ذمہ داری یا جمہوری اقدار کے شعور یا نظم و ضبط کا نام دیا جائے یا تینوں مذکورہ عناصر کا امتزاج کہا جائے، ان کی پاسداری ضروری ہوتی ہے تاکہ بات جذبات و افکار کے اظہار تک محدود رہے۔ سیاسی طاقت کے مظاہر اور ہجوم کی نفسیات کا مطالعہ کرنے والے مبصرین اس بات کو اصولی طور پر درست نہیں سمجھتے کہ ہجوم کے ذریعے ایک مقام کا محاصرہ کرکے انتظامیہ یا کروڑوں ووٹ حاصل کرنے والی حکومت کو مجبور کیا جائے کہ ان کی مرضی کےمطابق فوری طور پر فیصلے کئے جائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر منتخب ایوانوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور جہاں ضرورت ہو عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ مظاہروں اور ریلیوں کے ذریعے مختلف مکاتبِ فکر اور طبقات کو اپنی رائے کے اظہار کا جو حق حاصل ہے اس کا ایک مقصد رائے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنا بھی ہو سکتا ہے مگر متعدد ملکوں کی تاریخ اور حالیہ واقعات میں محض اظہارِ جذبات سے آگے بڑھ جانے کے ایسے حوالے موجود ہیں جن کےنتیجے میں جمہوریت اور عوامی امنگوں کا نقصان ہوا۔ جہاں تک نو سیاسی پارٹیوں کے کراچی سے شروع ہونے والے مارچ کا تعلق ہے، وہ سندھ کے مختلف شہروں سےگزر کر ملتان اور ساہیوال سے ہوتا ہوا منگل کی رات لاہور پہنچ گیا اور اس کا سفر جاری ہے۔ تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں شامل لیڈروں کے خوشگوار مذاکرات کے نتیجے میں اسلام آباد انتظامیہ اور جے یو آئی کی قیادت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت مارچ کے شرکا کو دارالحکومت میں جلسے ہی نہیں دھرنے کی اجازت دے کر آزادی اظہار کے آئینی تقاضے پورے کر دیئے گئے ہیں، تاہم منگل کی رات جے یو آئی (ف) راولپنڈی کے حوالے سے یہ فیصلہ سامنے آیا کہ آزادی مارچ اب مری روڈ سے گزرے گا۔ یہ بات سابقہ شیڈول سے مختلف ہے جس کے تحت ایکسپریس وے سے ہوکر روات سے گزرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب تک کے مارچ کے دوران راستے میں کوئی چیز ٹوٹی نہ کوئی بدنظمی و بدمزگی ہوئی۔ اس سے مارچ میں شریک پارٹیوں کی ذہنی بالیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔ انہی جذبات اور نظم و ضبط کا اس وقت بھی اظہار ہونا چاہئے جب دارالحکومت میں اپوزیشن پارٹیوں کا مشترکہ جلسہ منعقد ہو۔ جے یو آئی (ف) اور مارچ میں شریک پارٹیاں اپنی طاقت اور حکومت وقت سے ناراضی کا اظہار پُرامن رہتے ہوئے کرنے میں تاحال کامیاب رہی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے اجتماعات اور دھرنوں کی طرح دارالحکومت کو سیل کرنے کے بجائے ایک اچھی روایت کے ساتھ معاملہ کو پُرامن انداز میں یہیں ختم کر دیا جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی منتخب ایوانوں کو زیادہ فعال بنانے پر توجہ دینا چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی سیاسی پارٹی کو اپنے احتجاج کی شدت ظاہر کرنے کیلئے مارچ کی ضرورت نہ پڑے۔ اس ضمن میں وفاق میں برسراقتدار پارٹی کو تمام سیاسی پارٹیوں کی مشاورت کے لئے پہل کاری کرنی چاہئے تاکہ مستقبل میں معاملات پُرامن انداز میں حل کرنے اور دھرنوں سے اجتناب پر اتفاق رائے سامنے آ سکے اور متفقہ طریق کار کی خلاف وررزی پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے۔ یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن مناسب یہی ہے کہ ملک کے مفاد اور جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے تمام سیاسی پارٹیاں مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔

تازہ ترین