• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی صورتحال مایوس کُن

ملک میں حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ کوئی پیش گوئی کرنا محال نظر آتا ہے، گزشتہ ہفتے سے حالات نے جو کروٹیں لی ہیں وہ آگے کیا رنگ جماتی ہیں اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا آسان نظر نہیں آتا، میاں نواز شریف کے اچانک پلیٹ لیٹس کم ہونے سے لے کر آگے ہر لمحہ کے ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال نے پاکستان کی سیاست کے ہچکولے کھاتے سفر کو مزید ناہموار راستوں پر ڈال دیا ہے، اب یہ صاف نظر آرہا ہے کہ میاں نواز شریف لندن جانے کے لئے آزاد ہوچکے ہیں ، ادھر مولانا فضل الرحمن کے آزاد مارچ نے بھی سیاست کے کئی گہرے رنگوں کو نمایاں کردیا ہے ، دوسری طرف اس سارے عمل میں حکومت کی مداخلت بھی صاف نظر آرہی ہے۔

اب وہ گھن گرج جو احتساب کے حوالے سے حکومت کا بیانیہ نظر آتی تھی اس میں کافی حد تک کمی نظر آرہی ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں احتساب کے نام پر جن لوگوں کو پابند سلاسل رکھا گیا ہے وہ بھی ایک ایک کرکے اسی طرح عدالتوں سے ریلیف پائیں گے جس طرح نواز شریف کو مل چکا ہے۔ اس سارے تناظر میں جنوبی پنجاب کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ سیٹ اپ اس سارے مدوجزر کے بعد بھی قائم رہے گا یا نادیدہ طاقتیں اس کی بساط لپیٹ کرایک نئے تجربے کی بنیاد رکھ دیں گی ۔ 

جنوبی پنجاب کی طرف سیاسی جماعتوں کے رجحان سے یہ شائبہ ابھرتا ہے کہ شاید وہ آنے والے دنوں یا مہینوں میں ایک بار پھر نئے انتخابات کی امید لگائے بیٹھی ہیں خاص طور پر پیپلزپارٹی ایک مشن کے طور پر جنوبی پنجاب کو اپنا ہدف بنا رہی ہے کیونکہ پورے جنوبی پنجاب میں صرف یہی وہ خطہ ہے کہ جہاں سے پیپلزپارٹی ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو حاصل کرسکتی ہے کیونکہ اس علاقے میں تحریک انصاف بھی ایسا نقش ثبت نہیں کرسکی جو عوام کی ان توقعات پر پورا اتر سکے جو انہوں نے تحریک انصاف سے باندھ کر عام انتخابات میں ووٹ دیئے تھے۔ 

اس موقع سے کہ جو مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت کی عدم مقبولیت سے پیدا ہوا ہے پیپلزپارٹی بھرپو فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن دنوں آزادی مارچ کا سفر جاری ہوگا انہیں دنوں پیچھے پیچھے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی رابطہ عوام مہم کو منظم کرلیا ہے، وہ سندھ کے راستے جنوبی پنجاب میں داخل ہوں گے اور ان کی اسلام آباد میں آزادی مارچ میں جلسہ میں شرکت یقینی نظر نہیں آتی کیونکہ وہ جنوبی پنجاب میں سیاسی رابطہ عوام میں مصروف ہوں گے۔ ملتان اور جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی صورتحال مایوس کن ہے ، خدا خدا کرکے خانیوال سے عبدالحکیم کا موٹروے سیکشن مکمل ہوا تو شاہ محمود قریشی اس کا افتتاح کرنے شام کوٹ پہنچ گئے لیکن ایک بار پھر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس موقع پر منظر سے غائب رہے۔ 

یاد رہے کہ 32 کلو میٹر کا یہ سیکشن عدالت عدالیہ کے حکم کی وجہ سے افتتاح کے مراحل سے گزر رہا ہے اور اس سے پنجاب حکومت کی جنوبی پنجاب سے عدم توجہی اور نااہلی کا احساس اس لئے ہوتا ہے کہ 32 کلو میٹر میں سے تقریباً 28 کلو میٹر کا روڈ گزشتہ دور حکومت میں مکمل ہوا تھا صرف 4 کلو میٹر کا انٹرچینج بنانے کے لئے اس حکومت کو سوا سال کا عرصہ لگا ہے ۔ ایسی ہی ترجیحات نے عوام کے دلوں میں پی ٹی آئی کے لئے منفی جذبات پیدا کئے ہیں ۔ 

اگرچہ کریڈٹ لینے کی دوڑ تو لگی ہوئی ہے مگر وہ یہ تمام کریڈٹ ہیں جو گزشتہ حکومت کی دین ہیں ، موجودہ حکومت کے دور میں ابھی تک کوئی ایسا منصوبہ نظر نہیں آیا جس پر جنوبی پنجاب کے عوام اطمینان کا اظہار کرسکیں، حتیٰ کہ علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے کا دعویٰ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا حالانکہ یہ ایک واحد بڑا وعدہ تھا جو جنوبی پنجاب کے عوام سے کیا گیا اور اس کی باقاعدہ تاریخ بھی دی گئی لیکن پارٹی کے اندر اختلافات اور سیاسی جرأت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ اب یہ حالات ایسے ہیں کہ جو حکومت وقت کو غیر مقبول بنانے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں ، اوپر سے ڈیل کی افواہیں اور نواز شریف کی رہائی ، مولانا فضل الرحمن کا بھرپور آزادی مارچ، بلاول بھٹو زرداری کی گھن گرج اور حکومت کی عوام کو دینے میں ناکامی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی ناکامی سے جڑی افواہوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 

جنوبی پنجاب میں یہ افواہیں اس لئے بھی زیادہ سرگرم ہیں کہ ملک میں اس وقت ’’ مائنس ون ‘‘ فارمولا کی باتیں ہورہی ہیں اور خود وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اپوزیشن مائنس ون فارمولا کے تحت مجھے وزارت عظمیٰ سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اب جب بھی مائنس ون فارمولا کی بات ہوتی ہے تو شاہ محمود قریشی کی باڈی لینگویج میں ان کے ارد گرد موجود لوگ واضح تبدیلی محسوس کرتے ہیں کہ کیونکہ اس فارمولے کا مطلب یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کا وزیر اعظم بن جانا۔ اصل میں چونکہ پچھلے دو ادوار حکومت میں یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ دو دو وزیر اعظم اقتدار میں آئے اس لئے مولانا فضل الرحمن کا وزیر اعظم سے استعفیٰ کے لئے اصرار اور اپوزیشن کا اس کی حمایت کرنا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اپوزیشن فی الوقت اس سیٹ اپ کو چلتا کرنا نہیں چاہتی خاص طور پر پیپلزپارٹی کی یہ کوشش ہے کہ اس کی سندھ حکومت بھی برقرار رہے اور فوری انتخابات بھی نہ ہوں البتہ عمران خان کی جگہ تحریک انصاف کا کوئی اور لیڈر وزیر اعظم بن جائے۔

ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے اندرونی حلقے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر ان ہائوس تبدیلی آئی تو وزارت عظمیٰ پی ٹی آئی کے پاس ہی رہے گی اور شاہ محمود قریشی اس کے مضبوط امیدوار ہوں گے ۔ اس قسم کی افواہیں اس وقت مضحکہ خیز لگتی ہیں جب وزیر اعظم عمران خان کی عالمی سطح پر پوزیشن اور پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے مضبوط تعلقات پر نظر پڑتی ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ انہیں زبردستی مجبور کیا جائے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں خود عوام اور پی ٹی آئی کے کارکن شاید اس قسم کی تبدیلی کو قبول نہ کریں۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین