مسافر ٹرینوں کے ذریعے اسمگل شدہ سامان ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کئے جانے کا انکشاف۔ریلوے کے بعض افسران و اہلکار بالخصوص بکنگ کا عملہ مسافر ٹرینوں کے ذریعے اسمگل شدہ سامان کی ترسیل میں مبینہ طور پر ملوث ہے، جس کے باعث قومی خزانے کو خطیر رقم کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ٹرینوں کے ذریعےسامان کی ایک شہر سے دوسرے شہر یا مقام پر منتقلی کے لئے ریلوے پولیس کی چیکنگ، سامان کی بکنگ کرانے والے کے کوائف اور سامان پر کلیئرنس کا اسٹیکر لگایا جانا ضروری ہے۔
مگر ریلوے پولیس و بکنگ عملے کی مبینہ ملی بھگت سے ریلوے کی مسافر ٹرینوں کے ذریعے ماہانہ کروڑوں روپے کا اسمگل شدہ سامان بکنگ کے ذریعے کوئٹہ سے دیگر شہروں میں اسمگل کیا جارہا ہے۔ بکنگ کا عملہ سامان بکنگ کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اسمگل شدہ سامان کی بکنگ کرکے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے میں معاونت کررہا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا جب گزشتہ دنوں محکمہ کسٹم سکھر کی جانب سے ایک ہی دن میں کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی 2مسافر ٹرینوں جعفر ایکسپریس اور اکبر ایکسپریس پر چھاپے مارکر 5کروڑ روپے کا اسمگل شدہ سامان برآمد کیا گیا۔
ڈپٹی کلکٹر کسٹم سکھر عمران رسول کے مطابق خفیہ اطلاع ملی تھی کہ کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی مسافر ٹرینوں جعفر ایکسپریس اور اکبر ایکسپریس میں اسمگلنگ کا سامان موجود ہے، جس پر کسٹم کی ٹیموں نے سکھر اور روہڑی ریلوے اسٹیشنوں پر کارروائیاں کیں۔ روہڑی اسٹیشن پر کارروائی کے دوران 4کروڑ45 لاکھ روپے اور سکھر اسٹیشن پر کی گئی کارروائی میں ایک کروڑ5 لاکھ روپے مالیت کی اشیاء برآمد کی گئیں۔ دو مختلف کارروائیوں کے دوران مجموعی طور پر 5 کروڑ 50لاکھ روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان تحویل میں لیا گیا ہے۔
ڈپٹی کلکٹر کسٹم عمران رسول نے بتایا ہے کہ مسافر ٹرینوں کے ذریعے سامان کی اسمگلنگ کی کوششیں ناکام بنانے کے دوران ریلوے اسٹاف کی جانب سے مزاحمت کی گئی جس پر ضلعی پولیس کی مدد لی گئی۔ مسافر ٹرینوں میں چھاپوں کے دوران اسمگل شدہ غیر ملکی سگریٹ، پان پراگ، کپڑے، ممنوعہ مصنوعات، مضر صحت اشیاء تحویل میں لے لی گئیں۔انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ جیسے مرض سے چھٹکارے کے لئے اس طرح کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ اسمگلنگ کے کاروبار کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں ملنے والی کسی بھی اطلاع پر فوری طور پر کارروائی کی جارہی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
محکمہ کسٹم کی جانب سے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرکے کروڑوں روپے کے سامان کی اسمگلنگ کی کوشش تو ناکام بنادی گئی مگر یہ سوالات اپنی جگہ تاحال موجود ہیں کہ مسافر ٹرینوں میں یہ سامان کس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر ترسیل کیا جارہا تھا۔ اس گھنائونے کاروبار میں کون لوگ ملوث ہیں، اس سے قبل جب بھی ریلوے سکھر ڈویژن میں کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی مسافر ٹرینوں میں روہڑی، سکھر اور جیکب آباد ریلوے اسٹیشنوں پر کسٹم حکام کی طرف سے کاروائی کی گئی تو کبھی لاکھوں اور کبھی کروڑوں روپے مالیت کا سامان برآمد کیا گیا جس میں نہ صرف اسمگل شدہ سامان بلکہ نشہ آور ممنوعہ مصنوعات بھی برآمد کی گئیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسمگل شدہ سامان کی ترسیل مختلف مسافر ٹرینوں کے ذریعے کوئٹہ لاہور اور کراچی سے مختلف شہروں کے درمیان کی جاتی ہے۔ بھاری مقدار میں اسمگل شدہ سامان خاص طور پر کوئٹہ سے لاہور اور راولپنڈی جانے والی مسافر ٹرینوں اکبر ایکسپریس اور جعفر ایکسپریس کے ذریعے کی جاتی ہے، یہ کام طویل عرصے سے جاری ہے اور اس میں اب ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھا جارہا ہے، سابقہ حکومتوں نے تو اس جانب کوئی توجہ نہ دی لیکن موجودہ حکومت جو کہ ٹیکس کے نظام کی بہتری کے لئے بہت زیادہ کوششیں اور اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے مگر یہ اہم اور سنگین مسئلہ اس حکومت کی نگاہوںسے بھی اوجھل ہے۔ آج بھیبذریعہ ریلوے ، اسمگلنگ کے ذریعے ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو ہر سال خطیر رقم کا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
پولیس کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق تین سے چار سال قبل آئی جی ریلوے پولیس کی جانب سے ایک ایس او پی بنائی گئی تھی کہ جس اسٹیشن سے بھی ٹرین میں کوئی سامان بک کرایا جائے گا اس کو ریلوے پولیس چیکنگ کے بعد کلیرنس اسٹیکر لگائے گی جس کے بعد ریلوے بکنگ کا عملہ اس سامان کی بکنگ کرے گا جبکہ سامان بک کرانے والے سے فارم پر کرایا جائے گا اور اس کے کوائف بھی ریلوے پولیس یا بکنگ آفس میں موجود ہوں گے۔ آج بھی ریلوے میں سامان کی بکنگ کے وقت ریلوے پولیس کی جانب سے کلیئرنس کا اسٹیکر لگایا جاتا ہے اس کے باوجود کس طرح اسمگل شدہ اور ممنوعہ سامان بک کیاجاتا ہے ۔یہ ریلوے انتظامیہ خاص طور پر ریلوے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اسمگلنگ کے کاروبار کو ریلوے انتظامیہ اور ریلوے پولیس کے بعض افسران کا آشیرواد حاصل ہے اور مختلف اسٹیشنوں پر ریلوے پولیس اور ریلوے بکنگ کا عملہ بھی اس میں ملوث ہے جس کے باعث ٹیکس کی مد میں ملکی خزانے کو سالانہ خطیر رقم کا نقصان پہنچ رہا ہے اس اہم اور سنگین مسئلے کی جانب سے نہ صرف وزارت ریلوے بلکہ ریلوے پولیس کے اعلی افسران نے بھی مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔
متعدد مرتبہ محکمہ کسٹم کی کاروائیوں کے دوران لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان برآمد کیا گیا لیکن ریلوے انتظامیہ اور ریلوے پولیس کے متعلقہ ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی سامنے نہیں آئی کہ آخر لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کے اسمگل شدہ سامان خاص طور پر نشہ آور ممنوعہ اشیاء کی بکنگ کیسے اور کیوں کی گئی۔ ایک جانب وفاقی حکومت ٹیکس کے نظام کی بہتری کے لئے اقدامات کررہی ہے تو دوسری جانب وفاقی حکومت کے زیر انتظام ادارہ محکمہ ریلوے ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔
شہری و عوامی حلقوں نے محکمہ کسٹم کی جانب سے اسمگلنگ کے کاروبار کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ کسٹم کی کارروائیاں خوش آئندہیں مگر اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں ملوث تمام عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ مسافر ٹرینوں میں اسمگل شدہ سامان کی بکنگ اور ایک شہر سے دوسرے شہر ترسیل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ریلوے کے بعض افسران و اہلکار بالخصوص بکنگ کا عملہ اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہے۔
وزیر اعظم، وفاقی وزیر ریلوے، چیئرمین ایف آئی اے سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے افسران کو اس جانب خصوصی توجہ دے کر اسمگل شدہ سامان کی ترسیل میں مبینہ طور پر ملوث عناصر کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے تاکہ اسمگلنگ کے گھنائونے کاروبار کو روک کر قومی خزانے کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاسکے۔