ایڈیٹوریل بورڈ
ڈونلڈ ٹرمپ کے معیار کے مطابق گزشتہ ہفتے کا سب سے حقیقت سے ماورا عجیب موقع وہ تھا جب امریکی صدر نے روم کے ساتھ قیم تعلقات کو سراہا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا یقینی طور پر یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ کیلگولن خاتمے کے افکار کو جنم دیں۔تاہم گزشتہ ہفتے ان کے اس اقدام سے روم کے ایک من موجی شہنشاہ کا تصور دماغ میں لے آگیا۔اس کی انتہا ایک خط کا اجراء تھا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے رجب طیب اردوان سے ہزاروں کردوں کو نہ مارنے کی درخواست کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب پر زور دیا کہ سخت آدمی نہ بنیں،آئیے ایک معاہدہ کرتے ہیں۔شام کے کردوں کے زیر تسلط علاقوں پر ترکی کے حملے میں مختصر وقفوں پر طیب اردوان کو راضی کرنے کے بعد دوسرے دن ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک سولائزیشن کیلئے ایک عظیم اعلان کیا۔
درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے سب سے دلیر علاقائی حلیف سے دستبردار ہورہے تھے،جس نے داعش کے خلاف لڑتے ہوئے 11 ہزار جانیں گنوادی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’ کرد فرشتے نہیں تھے‘‘۔دور دراز کی سرحد پر جو کچھ ہوا امریکا کے لئے باعث تشویش نہیں تھا۔یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح ان کی انوکھی حکمت عملی کے خلاصہ کی علامت کے طور پر اکسانے والا ہوگا۔
جیسا کہ ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مٹ رومنی نے کہا ہے کہ ہم نے کردوں کے لئے جو کیا امریکا کی تاریخ پر یہ خونی دھبہ کی حیثیت سے نظر آئے گا۔تاہم یہ قیاس کرنے کی بہت کم بنیاد ہے کہ صدر اتنی نچلی سطح تک کیوں چلے گئے۔خوفزدہ ہونے کی دو وجوہات ہیں جو چیزیں بدستور انحطاط پذیر ہوتی رہیں گی۔
اول بات تو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات کو کس طرح سنبھالیں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے اندر جنگ کے اشارے بڑھ رہے ہیں۔وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ کانگریس کے ساتھ تعاون کو مسترد کرے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے یورپی یونین کے سفیر گورڈن سونڈ لینڈ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے سابق مشیر فیونا ہل سمیت سابق اور موجودہ عہدیداروں کی بڑھتی ہوئی فہرست ہے جس نے بہرحال گواہی دی ۔ہر ایک نے امریکی صدر کی بتدریج بنتی تصویر میں اضافہ کیا جو امریکا کی طاقت کے لیور کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کیلئے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا کے ایک ریزورٹ میں آئندہ سال جی سیون سربراہی اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ، آئین کی معاوضے کی شق کی کھلی اور واضح خلاف ورزی تھی،جو غیر ملکی رہنماؤں کے تحائف سے منع کرتی ہے۔امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ٹرمپ آرگنائزیشن کی جیب میں ڈالنے کا یہ واقعہ اب تک کی سب سے قابل مذمت اور افسوسناک مثال ہے۔
گزشتہ ماہ کے آغاز میں ولادی میر زیلنسکی کے ساتھ ان کی کال کی تحریری نقل کےاجراء کے ذریعے،مزید یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی کافی حد تک خدشات ختم کرچکے ہیں کہ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ یوکرائنی صدر جب تک ان کے حریف جو بائیڈن پر الزامات عائد نہیں کرتے ،وہ ان کی فوجی امداد روکیں گے۔جمعرات کو امریکی صدر کے چیف آف اسٹاف مل میولانے نے کسی بھی دیرپا غیریقینی صورتحال کو دور کردیا تھا،جس نے اعتراف کیا کہ مسٹر ٹرمپ واقعتاَََتاوان کی تلاش میں تھے،ان کے تبصرے کو وائٹ ہاؤس کے وکلاءنے فوری روک دیا تھا۔
بعدازاں مل میولانے یہ کہہ کر اپنے بیان سے پلٹنے کی کوشش کی کہ انہوں نے وہ نہیں کہا جیسا کیمرے میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔اس نے وائٹ ہاؤس کو بے نقاب کیا کہ وہ سادہ ترین پیغامات مرتب کرنے سے قاصر ہے۔
پریشانی کی دوسری وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی حکومت کی مشینری کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کا رجحان ہے۔ اس ہفتے گواہوں نے اس نظریہ کو تقویت بخشی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی وکیل روڈی گلیانی کے ذریعے شیڈو فارن پالیسی چلارہے ہیں، جو بیک وقت مشکوک غیرملکی کاروباری مؤکلوں کی بددیانت گیلری کی نمائندگی کرتے ہیں۔روڈی گلیانی نے کانگریس کو گواہی دینے سے انکار کردیا ہے۔انہیں ایسا ہی کرنے پر مجبور ہونا چاہئے۔
گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کانگریس نے مواخذے کی شقیں مرتب کرنے کے قریب کئی اقدامات کیے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی اثناء میں امریکی خارجہ پالیسی کو افسوسناک مزاحیہ ڈرامے میں تبدیل کردیا کہ اس کو کس طرح عمل میں لایا جانا چاہئے۔
اس ہفتے اسامہ بن لادن کو شکار بنانے کے آپریشن کی سربراہی کرنے والے امریکی ایڈمرل ولیم میک ریون نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ ہماری جمہوریہ صدر کی جانب سے حملے کی زد میں ہے۔ وہ درست تھے۔ امریکی جمہوریہ کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔