• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا جے یو آئی کے آزادی مارچ کو مزاحمتی تحریک کا آغاز کہا جا سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتیں کیا اس قابل ہیں کہ وہ مزاحمتی سیاست کا احیا کر سکیں؟ ان سوالات کے جواب سے قبل آئیے گزشتہ روز کراچی میں منعقدہ ’’پاکستان میں مزاحمتی تحریکیں‘‘ سے معنون اُس کانفرنس کے چیدہ چیدہ نکات کا مطالعہ کرتے ہیں، جو ممتاز مورخین، دانشوروں اور صحافیوں نے اُٹھائے۔ معروف محقق ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا تھا ’’ماضی میں بڑی بڑی مزاحمتی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ یہ تمام تحریکیں چونکہ شخصیات کے خلاف تھیں اسی لیے نظام کو درپیش مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے‘‘۔ نامور صحافی مظہر عباس نے کہا کہ ہر حکومتی انتظامیہ کا خیال ہوتا ہے کہ اگر میڈیا قابو میں رہے گا تو سب کچھ قابو میں رہے گا۔ انگریزوں کے بنائے گئے قوانین آج بھی لاگو ہیں، آرٹیکل 19میں درج الفاظ Reasonable Restrictions کی تشریح کی ضرورت ہے، ہر دور کی حکومت نے اس کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کیا جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مزاحمتی ادب کی تاریخ پر ناظر محمود نے اپنے مقالے میں کہا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا مطالعہ پاکستان دراصل پاکستانی مقتدرہ کا بیانیہ ہے، اس میں تاریخ اور تجزیہ کی بڑی بڑی غلطیاں موجود ہیں۔ کانفرنس کی نظامت اُستادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کی جبکہ محترم حسین نقی، ڈاکٹر حسن جاوید، انیس زیدی، ڈاکٹر انور شاہیں، ڈاکٹر ہما غفار، ڈاکٹر جعفر، مارکسی دانشور سرتاج خان، کرامت حسین، سہیل سانگی، رشید کھوڑو، صفیہ بانو، بیرسٹر روی پنجانی نے مقالے پیش کئے۔ یہ ہمہ جہت کانفرنس تھی، لیکن معروضی صورتحال کے تناظر میں ہم ان سطور میں ایک، مگر اہم نکتہ کہ ماضی کی تحریکوں کے نتیجے میں ’’نظام کو درپیش مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے‘‘ پر غور کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ جن وجوہات کی وجہ سے سیاسی مد و جزر کا شکار رہی ہے، اس کا جائزہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، آج دیہات، کچی آبادیوں، محلوں، تھلوں میں بھی اس پر مباحثے ہو رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عوام کو مختلف حیلوں، ہتھکنڈوں سے کوئی بھی اپنے مقصد کی خاطر آج بھی بروئے کار لا سکتا ہے، تاہم بالخصوص سوشل میڈیا کے باوصف عوام اُن مخفی حساس حقیقتوں سے بھی آگاہ ہونے لگے ہیں جن کو ’’عریاں‘‘ ہونے سے ہمارا قومی میڈیا یہ کہہ کر بچنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے ’’فحاشی‘‘ کا الزام لگ سکتا ہے اور یا بقول مظہر عباس بھائی Reasonable Restrictionsلاگو ہو سکتی ہیں۔ بنا بریں حکومت کے جانے یا نہ جانے سے بھی زیادہ آج کا اہم سوال، جس سے عوامی مسائل اور ملکی ترقی و استحکام جڑے ہوئے ہیں، یہی ہے کہ کیا آزادی مارچ کی کامیابی سے ’نظام کو درپیش مسائل حل ہو سکیں گے؟‘ بظاہر تو مارچ یا اس تحریک کا ایجنڈا ہی مبہم ہے، پھر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں جو غیر واضح موقف لئے ہوئے ہیں، بالخصوص سینیٹ میں اپنی ہی عدم اعتماد کی تحریک پر جس طرح عدم اعتماد کا عملی مظاہرہ کیا گیا، اُس سے ان شکوک کو تقویت ملتی ہے کہ بڑی جماعتیں اپنے ’مقاصد‘ کیلئے اپوزیشن کے ’خاص مقصد‘ کو کسی بھی موقع پر نقصان پہنچانے کیلئے آمادہ ہو سکتی ہیں۔ پاکستان چونکہ روزِ اول سے مصنوعی و حقیقی ہر دو مسائل سے دوچار ہے، ان کے سبب یہ سرزمین تحریکوں کیلئے ہمیشہ زرخیز رہی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آزادی مارچ تعداد کے لحاظ سے ماضی کی کسی بھی تحریک کا ہم پلہ ہے، تاہم یہاں اس الزام کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے کہ مارچ میں غالب اکثریت مدرسوں کے اُن طلبہ کی ہے جن کا نصب العین امورِ مملکت کیلئے جمہوری بندوبست کی تعلیم و تربیت تو کجا، اس کی مخالفت ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مزاحمتی تحریکیں اُس وقت شروع ہوتی ہیں جب عوام کو درپیش مسائل حل نہیں ہوتے، تاہم مزاحمتی تحریکوں کے رہنما اگر عوام کو اپنے ساتھ شامل نہ کریں تو عوام ریاست کے خوف کا شکار ہو کر مزاحمتی تحریک کا حصہ نہیں بنتے۔ اب موجودہ تحریک کا حال یہ ہے کہ اس کی دو بڑی جماعتیں خود تحریک کے حوالے سے ’بوجوہ‘ تذبذب کا شکار ہیں، لاہور میں نون لیگ کے کارکن تک مارچ میں نہیں آئے، لہٰذا وہ عوام کو کیونکر اس تحریک میں شامل کر پائے گی۔ برسر زمین حقائق کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمتی تحریک کیلئے مطلوبہ حالات تو موجود ہیں لیکن اپوزیشن عوام کو ساتھ ملانے کیلئے عمل پیرا نہیں، مزید براں چونکہ ملکی و عوامی مسائل کے پائیدار حل کیلئے نظام کو ’درپیش مسائل‘ کا حل ضروری ہے۔

تازہ ترین