گزشتہ دنوں ہمارے چوکیدار بابا (خان صاحب) ایک ہفتے کی رخصت لے کر اپنے گاؤں گئے تھے، وہاں سے لوٹے تو اپنے بڑے بیٹے جمال کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے اپنے ساتھ لے آئے جمال میرے بھائی فہد کا ہم عمر تھا۔ دونوں نے حال ہی میں ساتویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا۔
خان صاحب جمال کا داخلہ کسی اچھے اسکول میں کروانے کے خواہش مند تھے، خان صاحب کے روشن خیال جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنی طرح چوکیدار نہیں بنانا چاہتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں فعال کردار ادا کرے۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ خان صاحب خود کبھی اسکول نہیں گئے تھے۔ اس لیے انہیں شہر کے تعلیمی اداروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں، تو ہمارے ابو نے جمال کے تعلیمی اخراجات اور داخلے کی ذمہ داری لے لی۔
فہد کا اسکول شہر کا کوئی نامی گرامی اسکول نہ تھا، بلکہ اوسط درجے کا انگریزی میڈیم اسکول تھا، جس کی فیس بھی ہماری دست رست میں تھی، اسی لیے ابو نے جمال کا داخلہ بھی اسی اسکول میں، فہد ہی کی جماعت میں کروانے کا فیصلہ کیا اور داخلہ فارم جمع کروا دیئے، اب انتظار تھا تو بس اتنا کہ داخلہ ٹیسٹ کے نتائج سامنے آئیں اور جمال اپنا تعلیمی سفر ایک بار پھر شروع کرسکے۔
مگر افسوس جب نتیجہ سامنے آیا تو جمال انگریزی، سائنس اور ریاضی میں فیل تھا۔ اردو، اسلامیات، سندھی میں بھی کچھ خاص نمبر حاصل نہ کرسکا۔ کمپوٹر کی تعلیم تو اس نے کبھی حاصل ہی نہیں کی تھی، کیوں کہ اس کے نصاب میں کمپوٹر بطور مضمون شامل تو تھا، لیکن ان کے گاؤں میں اس کا کوئی قابل استاد موجود نہ تھا۔
اس لیے جمال داخلے سے محروم رہ گیا، لیکن ابو نے جمال کو اردو میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی حالت زار کا اندازہ صرف ان کے فرسودہ نصاب سے ہی لگایا جاسکتا ہے، جو نسل در نسل چلا آرہا ہے۔ اس پر سونے پر سہاگا یہ کہ انہیں نہ معیاری کتابیں مہیا ہیں اور نہ قابل اساتذہ، جو انہیں فرسودہ نصابی کتابوں سے کچھ پڑھا اور سمجھا سکیں۔ یوں تو جمال نے ساتویں جماعت پاس کرلی تھی مگر اس کی قابلیت و ذہانت پانچویں جماعت کے طلبہ کے برابر تھی۔
یہ ہمارے تعلیمی اداروں کی کمزوری ہے کہ تاحال ملک میں یکساں تعلیمی نظام نافذ نہیں ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کو مفت تعلیم فراہم کرے یہ یقینی بنائے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرئے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں تصور کیا جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں صرف غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرئے گا جب کہ جس کی جتنی استطاعت ہوگئی وہ اسی لحاظ سے اپنے بچوں کو اچھے انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخل کروائے گا۔
جہاں کا نہ صرف نصاب مختلف ہے بلکہ کتابیں بھی بیرونی ممالک کی پڑھائی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان طبقاتی نظام میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ آج ہم نے تعلیم کو بھی برانڈڈ بنا دیا ہے۔ سرکاری اور اردو میڈیم اسکولوں صرف غریب کے بچوں کے لیے ہیں، جہاں تعلیم تو مفت ہے لیکن معیاری نہیں، جب کہ چھوٹے بڑے انگریزی میڈیم اسکولوں میں استطاعت رکھنے والے ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں اور جن کی جیب او اور اے لیول کی فیس برداشت کرسکتی ہے وہ اپنے بچوں کو کیمبرج اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔
جتنا مہنگا اسکول اتنا معیاری نصاب۔ ایک جانب غریب والدین کے بچے اسکول جانے سے قاصر رہ جاتے ہیں، جو اسکول میں داخلہ لے لیتے ہیں تو معیاری تعلیم میسر نہ ہونے کے باعث وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں جہاں ان کے والدین کھڑے ہوتے ہیں۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس تفریق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی اُٹھائیں۔ نیز نظام تعلیم عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے صرف ایک نصاب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ قابل اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے، ایسے اساتذہ جو صرف پیسہ کمانے کی غرض سے اس شعبے کی جانب نہ آئیں بلکہ ان میں ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے اور خدمت خلق کا جذبہ ہو۔
(منجانب، صائمہ ارفان، کراچی)