• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب نے وزیر اعظم سے 22 گریڈ کی 4 نشستیں مانگ لیں

انصار عباسی

اسلام آباد:… پاکستان میں کسی اور ادارے اور ایجنسی کا مقابل نہ ہونے اور لاثانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) نے عوامی مفاد کے تحت اور خصوصی کیس سمجھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ادارے کے چار ڈائریکٹر جنرلز کیلئے 22؍ گریڈ کے عہدے دیے جائیں۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے دستخط کردہ تین صفحات پر مشتمل سمری میں نیب نے وزیراعظم سے ادارے کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کی چار اسامیوں کو گریڈ 21؍ سے اپ گریڈ کرکے 22؍ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیراعظم کو قائل کرنے کیلئے نیب نے پاکستان کی فارن سروسز کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کے ساتھ تقابل کریں تو محکمہ خارجہ میں منظور شدہ افرادی قوت کم ہے لیکن اس کے باوجود نیب کے مقابلے میں دیکھیں تو فارن سروسز میں 22؍ گریڈ کی 12؍ نشستیں ہیں۔

سمری میں تجویز دی گئی ہے کہ گریڈ 22؍ کی نشتیں ملنے سے بیورو کے ڈائریکٹر جنرلز کو پارلیمانی کمیٹیوں، گریڈ 22؍ کے سرکاری ملازمین اور بیرون ممالک میں ان کے ہم منصبین کے ساتھ رابطہ کاری میں آسانی ہوگی۔ سمری میں نشاندہی کی گئی ہے کہ گریڈ 21؍ کے ڈائریکٹر جنرلز کو ایسے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں نامناسب حالات کا سامنا رہتا ہے اور حالات ان کیلئے ناموافق ہو جاتے ہیں۔ اب تک کے اقدامات پر اپنی تعریف اور 325؍ ارب روپے کی لوٹی ہوئی دولت ریکور کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے نیب چیئرمین کا کہنا تھا کہ کرپشن کی لعنت سے نمٹنے کیلئے نیب کی کارکردگی اپنے قیام کے دن سے ہی شاندار اور ملک کی کسی دوسری ایجنسی اور ادارے کے مقابلے میں لاثانی رہی ہے۔

سمری میں مزید کہا گیا ہے کہ کام کا بوجھ بہت زیادہ حد تک بڑھ جانے کے باوجود ادارہ اپنے فرائض کثیر الجہتی انداز سے نمٹا رہا ہے اور ساتھ ہی انکوائریز اور انوسٹی گیشنز بھی جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف تعاون، سرکاری خزانے کو براہِ راست یا بینک ڈیفالٹ یا پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے پہنچائے گئے نقصانات کے معاملات بھی موثر انداز سے نمٹائے جا رہے ہیں۔ تاہم، کام بہت بڑا ہے جس کیلئے بھرپور اور مسلسل محنت کے ساتھ موزوں ڈھانچے کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کی روک تھام کی جا سکے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لی جا سکے۔

 دی نیوز کے پاس اس سمری کی نقل موجود ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ نیب کی قیادت چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین، پراسیکوٹر جنرل احتساب اور ڈائریکٹر جنرلز پر مشتمل ہے جو مختلف ریجنز اور ڈویژن اسلام آباد ہیڈکوارٹرز میں کام کرتے ہیں اور محدود وسائل اور سخت حالات کے باوجود اپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔

اس میں مزید لکھا ہے کہ چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین نیب اور پراسیکوٹر جنرل احتساب کے عہدے قانون کے مطابق ہیں اور ان کی ایک مخصوص مدت ہوتی ہے اور ان کے ساتھ یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ عہدوں کی معیاد میں توسیع نہیں ہو سکتی۔ اس سے ایک ایسے موقع پر خلا پیدا ہو جاتا ہے جب ان میں سے کوئی بھی عہدیدار اپنی مدت مکمل کر لیتا ہے۔ یہ صورتحال، بالخصوص اس وقت جب چیئرمین کا عہدہ خالی ہو جاتا ہے، مکمل جمود کا سبب بنتی ہے اور قومی مفاد کیخلاف کرپشن سے لڑنے والے اعلیٰ ادارے کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

مزید برآں، نیب کو اکثر و بیشتر اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے جس میں پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، 22؍ گریڈ کے دیگر سرکاری ملازمین اور غیر ملکی ہم منصب شامل ہوتے ہیں جو 22؍ گریڈ کے مساوی ہوتے ہیں جبکہ نیب میں منظور شدہ اسامیوں میں 21؍ گریڈ کی 12؍ نشستیں ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف نیب افسران کے کیریئر میں آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ادارے کے اعلیٰ ترین عہدیدار یعنی ڈائریکٹر جنرل (گریڈ 21) کو ایسے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں نامناسب اور ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سمری میں مزید لکھا ہے کہ یہاں یہ بتانا قابل ذکر ہے کہ تمام دیگر کیڈر/ سروسز میں آگے بڑھنے کے عمل کو اس کیڈر / سروس میں افسران کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے گریڈ 22؍ کے پوزیشن کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے۔

دوسری جانب نیب میں گریڈ 16؍ سے 21؍ تک افسران کی تعداد ایک ہزار ہونے کے باوجود ادارے کے افسران کو کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ ادارے کو گریڈ 22؍ میں مطلوبہ عہدے نہیں دیے گئے۔ یہاں فارن سروسز آف پاکستان کی مثال پیش کی جاتی ہے جہاں نیب کے مقابلے میں افسران کی تعداد کم ہے لیکن وہاں بھی گریڈ 22؍ کی اسامیاں موجود ہیں۔

لہٰذا، مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں معاملات کو منصفانہ اور شفاف انداز سے آگے بڑھانے کیلئے تجویز ہے کہ 21؍ گریڈ کے ڈائریکٹر جنرلز کی موجود 12؍ اسامیوں میں سے کم از کم 4؍ کو اپ گریڈ کرکے 22؍ گریڈ میں لایا جائے۔

اس کیلئے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے منظوری کی ضرورت ہے تاکہ نیب کے افسران کو اسپیشل کیس کی صورت میں 22؍ گریڈ کی پوزیشن دی جا سکے۔

تازہ ترین