• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد نعمان چشتی

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

علامہ اقبال کے1930 کی دہائی میں لکھے گئے یہ اشعار آج بھی تازہ ہیں لیکن! یہ مقام فکر ہے، علامہ اقبال کے اجداد کشمیری تھے۔ ہندو مہاراجہ کے ظلم کے نتیجے میں ہجرت کرکے سیالکوٹ تشریف لے آئے۔ اقبال اپنی تمام عملی زندگی میں کشمیریوں کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ سیالکوٹ اور لاہور میں انجمن کشمیریاں کے فعال رکن رہے۔

وہ جون1921میں پہلی بار کشمیر آئے تو انھوں نے یہاں نشاط باغ کے سایہ دار چناروں سے آگ اور دھواں اٹھتا ہوا دیکھا۔ انہیں وادی لولاب کے شاداب مرغزاروں میں ویرانیاں اگتی نظر آئیں اور ان کی نگاہیں خلد کشمیر کی روش روش پر چھائی ہوئی مردنی اور پژمردگی پر مرکوز ہوگئیں۔ ان کے جواں دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہر طرف بکھری ہوئی کشمیریوں کی نواہائے جگر سوز ہم آہنگ ہوئیں۔ وہ یہاں چند مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں آئے تھے مگر تقریباً دو ہفتوں کے قیام کے دوران ان کا دل وطن کی چوٹ سے بلبلا اٹھا۔ 

اس زمانہ میں کشمیر مطلق العنانیت اور شخصی حکمرانی کے آہنی پنجے تلے کراہ رہا تھا اور کشمیری قوم بےیار و مددگار تھی۔ اس بھیانک تاریکی کے سیاہ اور گھنائونے پردے میں اقبال کو چہار سو خاموشی اور سر بمہر سکوت کے سوا اور کچھ نظر نہیں آیا۔ کشمیر کی بےجان اور بے حس فضاوں سے اٹھتی ہوئی بےکسی اور بے بسی کی سرد آہیں اقبال کی زبان سے فغان بن کے نکلیں۔

علامہ اقبال کی خواہش پر14 اگست،1931 میں پہلی مرتبہ ’’یوم کشمیر‘‘ منایا گیا۔ اس سلسلے میں11 اگست،1931 کے اخبارت میں علامہ اقبال کی جانب سے ان الفاظ میں اپیل شائع ہوئی، مسلمانو! پہ درپہ حملے کرکے تمہارے دشمن کو اب یہ گمان ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک مردہ قوم ہے۔ اس گمان کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ کا فرض ہے کہ یوم کشمیر کو کامیاب بنائیں اور دشمن پر عملاً ثابت کر دیں کہ آپ ظلم و تعدی کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔

علامہ اقبال نے ’’یوم کشمیر‘‘ پر اپنی تقریر میں فرمایا:

تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ تلوار سے کسی ملک کو فتح کرتے ہیں ان کی حکومت بھی رعایا کی خوشنودی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بادشاہی خریدنے سے نہیں چل سکتی۔ اس لیے ہر ملک کے حکام کے لیے ضروری ہے کہ رعایا کی رضا جوئی حاصل کریں۔

اس موقع پر سید محسن شاہ نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ’’کیسری‘‘ نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال وہاں(کشمیر) کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور میں جج بننے کا آرزو مند ہوں‘‘۔ علامہ اقبال نے مداخلت کرتے ہوئے فرمایا ’’میں ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں‘‘ علامہ اقبال کسی عہدہ کے طالب نہ تھے، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کشمیری مسلمانوں کو راجہ کے ظلم سے نجات ملے۔ انھوں نے اپنی شاعری اور نثر میں بہت سے مقامات پر اس مسئلے کہ اجاگر کیا۔

انھوں نے 21مارچ1932 کو لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ’’کشمیر اس وقت قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے، کشمیری عوام حق پر ہیں، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک ناصرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کے لیے قوت کا باعث بنے گی۔ ان کے احتجاج کو فرقہ ورانہ رنگ دینا لغو ہے، تشدد میں تسلسل، ریاست میں لاقانونیت کو جنم دے گا۔‘‘

1933 میں جب کشمیری حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں مسلم سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تو علامہ اقبال نے اپنے7 جون1933کے بیان میں احتجاج کے دوران عورتوں اور بچوں پر لاٹھی چارج اور گولی چلانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس بیان میں انھوں نے برطانوی حکومت کو خبردار کیا کہ عوام پرعزم ہیں اور وہ آپ کے جھوٹے دعوں میں نہیں آئیں گے۔ انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو متحد رہنے کی اپیل کی۔

پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مسلمان کشمیر کے حالات سے بہت کم دلچسپی لیتے تھے بلکہ وہ لوگ جو کشمیر سے یہاں آئے وہ بھی اس کی تاریخ سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ اب جو مظالم کشمیر میں برپا کیے گئے، انھوں نے اہل پنجاب کو بھی بیدار کر دیا ہے۔ ان کے متعلق دربار کشمیر اور ہندو اخبارات نے بعض غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں اور عوام کی طرف سے جائز مطالبات پیش کرنے کو بغاوت یا ہندو مسلم فساد کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن یہ ہندو مسلم فساد نہیں تھے۔ 

علامہ اقبال کے پاس کشمیر کے کئی پنڈت حکومت کے خلاف شکایات لے کر آتے تھے۔ انھوں نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ مسلمانوں سے متحد ہو کر حکومت کے سامنے مطالبات پیش کریں، چنانچہ مسلمانوں نے جو عرصہ سے اپنے جائز حقوق کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے تھے منظم طریق پر مطالبات پیش کرنے کی کوشش کی تو حکومت کشمیر اور ہندو اخبارات نے بےبنیاد خبریں اڑا کر اسے فرقہ وار فساد قرار دے دیا۔ 

اس دور میں کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے مظاہروں کو سازش ثابت کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک کا اثر اہل کشمیر پر بھی ہونا لازمی تھا، چنانچہ وہ بھی اپنی حالت سے متاثر ہو کر بیدار ہوگئے۔ زمانہ خود لوگوں کو بیدار کر رہا تھا، ہے اور رہے گا۔ کشمیر میں عرصے سے جو مظالم برپا ہیں ان کی موجودگی میں ضروری تھا کہ وہاں کے عوام بھی اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتی۔

علامہ اقبال اپنی آخری تصنیف ارمغان حجاز میں کشمیر کی صورت حال پر اقوام عالم کی توجہ ان الفاظ میں دلاتے ہیں

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو

تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوُے و رنگ و بو

پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر

کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغِ آرزو

وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں

عشق سِیتا ہے اُنھیں بے سوزن و تارِ رَفو

ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش

حاکمیّت کا بُتِ سنگیں دل و آئینہ رُو

بدقسمتی سے آج بھی کشمیر غلام ہے، اقوام عالم خاموش ہے لیکن علامہ اقبال کا یہ پیغام آج کی دنیا کو خطرے سے خبردار کر رہا ہے۔

تازہ ترین