کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں اُنگلی کی ایک جنبش سے دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات پل بھر میں ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ انٹرنیٹ، اورموبائل فون کے ذریعے دُنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم اپنے عزیزو اقارب سےفوری رابطہ ہوجاتا ہے۔لیکن اس وقت تشویش ناک بات یہ ہے کہ منفی ذہنیت کے حامل افراد اس کو مذموم مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے اس نظام نے جہاں رابطوں کو سہل بنا دیا ہے تو دوسری جانب متعددافراد کی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال سائبر کرائمز کے زمرے میں آتا ہے۔
سائبر کرائمز اس جرم کو کہا جاتا ہے، جس میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ یا اس سے منسلک ڈیوائسز، سوشل میڈیا، ٹوئٹر اور فیس بک کو استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کو ذاتی حیثیت میںبلیک میل یا اسے مالی نقصان سے دوچار کیا جائے۔ کسی کے نجی کمپیوٹر اور نیٹ ورک میں داخل ہو کر ذاتی اور حساس معلومات کا سرقہ، ای فراڈ سے بھاری رقوم کی منتقلی، ای میل، ویب سائٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مدد سے کسی فرد، خصوصاً خواتین کو بدنام کرنے کے لئے تصاویر وائرل کرنا اور بلیک میل کرنا اس کے علاوہ چیٹنگ، موبائل فون پر ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس کے ذریعے کسی شخص کو انفرادی یا گروپ کی شکل میں ذہنی طور پر اذیت پہنچا کر اس کی ساکھ متاثر کرنا بھی سائبر کرائمز ایکٹ میں آتا ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس حوالے سےایف آئی اےسائبر کرائمزسیل نےخواتین یا ان کے عزیزوں کی جانب سے ملنے والی شکایات پردرجنوںافراد کو گرفتار کرکے مقدمات درج کئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ متعددخواتین اپنی اور خاندان کی بدنامی کے خوف سے قانونی کارروائی سے گریز کر تی ہیں ۔گزشتہ دنوںملک کی ایک معروف گلوکارہ نے ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کو شکایت کی ہے کہ اس نے اپنا موبائل فون فروخت کیا تھا، بعد ازاں اس کےموبائل سےتصاویرسرقہ کر کے وائرل کر دی گئیں جس پر فوری کارروائی کی جائے ۔
سائبرکرائمزمختلف نوعیت کے ہوتے ہیں، جن میں جعل سازی،مالیاتی جرائم، سائبر دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ،کسی کوبلیک میل کرکےرقم وصول کرنا وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان میں انٹرنیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ صرف امیر طبقے کی دسترس میں تھا ااور اس کا شمار پرتعیش مشغلے میں ہوتا تھا۔ تاہم اس کی قیمتوں میں کمی آنے سے ہر خاص و عام حتیٰ کہ ناخواندہ افراد کے لئے بھی اس تک رسائی آسان ہوگئی ۔
لیکن بعض افراد نے اس سے تعمیری کام لینے کی بجائے تخریبی مقاصد اور بلیک میلنگ کا ذریعہ بنا لیا۔ کسی نے سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹ بنا کر لوگوں کو ذہنی اذیت دینا شروع کی تو کسی نےورکنگ وومن اور اسکول کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبات کو اپنے جال میں پھنسا کرفوٹو شاپ کی مدد سے ان کی فیک تصاویربنا کران سے ناجائز مطالبات کیے ، ناکامی پر یہ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرکےان کی اور ان کے خاندان کو رُسوائیوں کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ کسی نےای فراڈ کے ذریعے لوگوں کو راتوں رات امیر بننے کے خواب دکھاکر بھاری رقوم لوٹیں۔ اس ٹیکنالوجی کے آغاز پر تو سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے نہ تو کوئی قانون تھا اور نہ ہی کوئی ادارہ۔
ایف آئی اے نے نیشنل رسپانس سینٹر فارسائبر کرائم کا باقاعدہ ایک سیل قائم کیا جواسابئر کرائم کے حوالے سے کسی بھی جرم کی تحقیقات کے بعد ملوث افراد کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزائیں دلوانے کا ذمہ دار ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے باوجود پاکستان ان ممالک میں شامل تھا جہاں ہیکرز اورای فراڈیوں نے الیکٹرونک لوٹ مار شروع نہیں کی تھی۔ پاکستا ن میں سائبر کرائمز کا آغاز اس وقت سے ہوا جب حکومت نے ا افرادی قوت کو بیرونی ممالک بالخصوص عرب ممالک بھجوانے کی حوصلہ افزائی کی ۔
ہمارے ملک میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے لئے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ فی الوقت 2014ء میں جاری کئے جانے والے الیکٹرانک ڈاکومنٹس اینڈ پریونٹیشن آف سائبر کرائمز ایکٹ کو ہی پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا ہے۔ اس میں سائبر سرگرمیوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لئے پہلے سے موجود قوانین اور کچھ حالیہ قانون سازی کو شامل کیا گیا ہے۔
اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بحیثیت مجموعی عام پاکستانی کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا براہ راست تعلق بہت ہی کم ہے۔ تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا بالواسطہ یابلاواسطہ طور پر انٹر نیٹ سے روزانہ ہی سابقہ پڑتا ہے۔ آپ بالفرض بینک میں رقم جمع کرانے یا نکلوانے جاتے ہیں تووہاں آپ خود انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے مگر آپ کی ٹرانزیکشن انٹرنیٹ پر ہی ہوتی ہے۔ ملک میں سائبر کرائمز کی نئی قانون سازی میں شناخت کی چوری کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ بینکوں، اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈز میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فراڈ ہیں۔
گھریلو یا دفتری ڈیٹا کی چوری بھی سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے نئی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔ خواتین کی مخرب الاخلاق تصاویر یا ویڈیو بنانے اور انہیں بلیک میل کرنے کے واقعات بڑھنے کے باعث اسے بھی سائبر کرائمز میں شامل کیا گیا ہے۔ بلیک میلنگ کے اس گھنائونے کاروبار کے باعث کتنے ہی گھرانے اُجڑ گئے ہیں۔ لیکن خواتین کی نام نہاد این جی اوز کی جانب سے ہی اس قسم کےجرائم کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی مخالفت کی گئی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کئے جانے والے جرائم سے نمٹنے کے لئے ایف آئی اے میں سائبر کرائمز ونگ قائم کیا ہے۔ تاہم لیبارٹریز کی ناکافی سہولتوں اور تجربہ کار افسران کی کمی کے باعث سائبر کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے نمٹنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ حال ہی میں اس ’’ونگ ‘‘نے فیس بک پر خواتین کے نام سے اکائونٹ کھول کر لوگوں کو دوستی پر آمادہ کر نے اور پھر انہیں لوٹنے والے چند افراد کے خلاف نہ صرف مقدمات درج کئے بلکہ انہیں عدالتوں سے سزائیں بھی دلائی ہیں۔
تاہم یہ اقدامات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے شکایات ملنے پر رواں سال کراچی میں متعدد کیسز پکڑے ہیں جن میں درجن سے زائدفیس بک پر غیر اخلاقی تصاویر اَپ لوڈ کر کے خواتین کو بلیک میل کرنے کے ہیں۔ سائبر کرائم کے جرم کی سزا 7سال قید اور 7لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
سائبر کرائم کا شکار افراد کیلئے ایف آئی اے سائبر کرائم سیل ملک بھر میں تحریری اور آن لائن شکایات ملنے پر کارروائی کرتا ہے۔ سائبر کرائم کےبڑھتے ہوئے منفی رجحانات کو روکنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے خاتمے کیلئے قائم کئے گئے سیل کو مزید فعال بنا کر آئی ٹی کے ماہر افسران کو تعینات کر نے کے علاوہ عملے میں اضافہ اور تحقیقاتی عمل میں استعمال ہونے والے جدید آلات کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔