• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
دنیا کے ہر معاشرے کے اصول یکسانیت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ پہلو بہ پہلو، ترتیب بہ ترتیب، ساتھ ساتھ برابری کی سیج سے معاشرہ سجے تو کیا رونق چمن قائم ہو۔ معاشرے میں پھیلی ابتری، انارکی، انتشار، نفسانفسی اور شیرازہ نہ بکھرے انسانی مزاج کا، کیونکہ بگاڑ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں ناانصافی ہو، ناہمواری ہو انسانوں اور انسانیت کے درمیان۔ غیر منصفانہ نظام میں سب سے پہلے لوگوں میں مایوسی پھیلتی ہے۔ پھر ایک دوسرے سے ہمدردی ختم اور بے اعتنائی و گمراہی پیدا ہوتی ہے۔ ہوتے ہوتے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر عداوت و کینہ پروری کا گڑھ بن جاتا ہے۔
مایوسی کسی بھی نظام کو کمزور کرنے کا اہم عنصر ہے۔اسلام میں مایوسی کو کفر سے تشبیہ دی گئی، مایوسی کفر ہے، جس سے ایمان کی کمزوری پختہ ہوتی ہے۔ مایوس قومیں کب رونق کائنات ہوتی ہیں۔ دین اسلام ایک ابھرتا سورج ہے، ایک روشن سحر کا پیغام دیتا ہے جہاں مایوسی گناہ اور عزم و امید معاشرے کا اہم جز ہیں کہ انسانیت کی تکمیل انہیں عوامل سے ممکن ہے۔ ان تمام عناصر کی بنیاد برابری اور یکسانیت ہے۔ آپؐ نے سماجی و معاشرتی زندگی میں یوں تو کئی اسباق پر زور دیا ہے اور کون سا ایسا سبق ہے کہ جہاں ہر شعبے میں مسلمانوں کو رہنمائی نہ ملے اور کون سے عوامل و امور ہیں کہ جہاں یکسانیت، برابری اور انصاف نظر نہ آئے۔ آپؐ کی پاکیزہ زندگی انسانی اور معاشرتی فلاح کا قیمتی نمونہ ہے کہ جہاں ایک شخص سے ناانصافی اپنے سے ناانصافی کے مترادف ہے۔ مساوات و برابری اور عدل و انصاف کی روشن مثالیں آپؐ کے یہاں ہی ملتی ہیں۔ وہ قصہ تو مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ جب قریش کی ایک خاتون چوری کی سزاوار قرار پائی اور کئی اصحاب اس کی سفارش کے لیے بڑھے تو آپؐ نے کسی کی نہ سنی اور یہ فرمایا کہ ’’تم سے پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب عام لوگ جرم کرتے تو انہیں سزا دی جاتی تھی، مگر صاحب حیثیت لوگوں کے جرائم کو معاف کردیا جاتا اور جان بوجھ کر غفلت برتی جاتی۔‘‘ آپؐ نے مظلوموں کی مدد اور محتاجوں کی اعانت کو شعار زندگی بنایا۔ اسی لیے جب بھی کہیں سے کسی مظلوم کی فریاد ابھرتی تو اس کی مدد کے لیے آپؐ کے ساتھ کئی دوسرے صاحبان بھی کھڑے ہوجاتے۔ وہ ’’حلف الفضول‘‘ کا واقعہ تو اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف میں بیان ہوا کہ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں باہم مشورہ سے جماعت ترتیب دی گئی جس میں عہد کیا گیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم ہو گا تو جماعت کے تمام لوگ اس کی مدد کرنے کو آگے بڑھیں گے۔
ان واقعات کی روشنی میں ہم حالیہ دور حکومت کی کارکردگی کا ذکر بھی کریں گے کہ مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والوں نے لوگوں کا دل جیتنے کو دکھاوے کا انصاف بھی دکھا کر عوام کو متاثر نہ کیا، بلکہ مظلومین کی دادرسی تک ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی، مدد تو دور کی بات ہے۔ غریب انصاف سے عاری زندگی گزار رہا ہے اور اس کے ساتھ کافی دکھ اور مایوسیاں ان کا مقدر ہیں۔ اس کے برعکس آپ امراء کے ٹھاٹ باٹ دیکھیے کہ ناممکن سا معاملہ بھی ان کی مٹھی میں بند رہتا ہے۔ انصاف ان کے لیے سستا اور غریب کے لیے مہنگا ہے۔ دولت ہو تو انصاف کے ساتھ ساتھ عدل کا ڈھانچہ تک خریدا جاسکتا ہے، مگر خالی ہاتھ صرف مجبوروں کے رہتے ہیں۔ کسی کا ناحق خون بہے تو بھی لواحقین کو انصاف نہیں ملتا۔
آپؐ کی زندگی کا محور برابری کی سطح سے شروع ہوکر ایک دوسرے کی پسند کا خیال رکھنا اور وہی چیز جو خود پسند ہو وہی دوسرے مسلمان کے لیے بھی پسند کرنا ۔حضرت خالد بن عبداللہ قسری رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد اور دادا سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے آپؐ نے دریافت فرمایا۔ ’’کیا تم کو جنت پسند ہے، یعنی کیا تم جنت میں جانا پسند کرتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا۔ جی ہاں! ارشاد فرمایا، اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ پھر یہ بھی ہے کہ حالانکہ یہ کام بہت مشکل ہے، کیونکہ اپنی چیز دوسروں کو دینے سے ہی دل پر بوجھ پڑتا محسوس ہوتا ہے، مگر جو شخص یہ عمل صرف اللہ کے لیے کرے وہ ضرور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا اور اللہ ایسے نیک اعمال کی توفیق تمام مسلمانوں کو عطا فرمائے۔ آپؐ کی امت میں ایک سے بڑھ کر ایک مسلمان آپؐ سے عقیدت و احترام میں اور جان نثار کرنے کے دعوے میں ہلکان ہے، مگر جس تعلیم کا سبق آپؐ نے بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے کے لئے اہم ستون قرار دیا کہ برابری اور یکسانیت سے رہو اور اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو تو یہ نبیؐ کے دور تک ہی اچھائیاں رہیں، بعد کے لوگ جو برگزیدہ تھے، انہوں نے سنت رسولؐ پر چلنے کی راہ اپنائی، ورنہ دین کے حالیہ ٹھیکیداروں کا مذہب ایسا ہی ہے جیسے ایک مرغے کی اذان کا تعلق نماز سے نہیں، اسی طرح ملائوں کا تعلق بھی دین سے ایسا ہی سمجھیے۔ آج دین کا صرف پرچار کرنے والے، واعظ و نصیحت کے پلندے باندھنے والے دین کے ٹھیکیدار اپنے برابر اپنے حلوہ کھانے والے بھائی کو کھانے نہیں دیتے، خود کھا جاتے ہیں۔ بہت سے ملاں قسم کے لوگ خود اچھے پرآسائش ماحول میں رہتے ہیں، مگر دوسروں کو اس سہولت کے قابل نہیں سمجھتے۔ مسلمان بادشاہوں کو دیکھ لیجئے، جو سمجھتے ہیں کہ دین ان کی وجہ سے چل رہا ہے۔ انہوں نے تیسری دنیا کے مسلمانوں کو کبھی اپنے ساتھ یا اپنے برابر نہیں بٹھایا بلکہ انہیں کمتر جانا۔ حالانکہ آپؐ رحمت اللعالمین ہیں، مگر ہمیشہ ہر مسلمان کو عزت دیتے تھے اور تقویٰ و پرہیزگاروں کو زیادہ ہی محترم جانا جاتا تھا۔ دین اسلام اپنانے والے غیر مسلم جب بھی اسلام کو اپناتے ہیں تو اسی بات سے متاثر ہوتے ہیں کہ محمدؐ کے دین میں اونچ نیچ نہیں۔ ہر انسان کو برابر سمجھا جاتا ہے۔ انسان کی عظمت کی اس سے بڑی مثال دنیا میں نہیں ہے، جہاں بار بار یہی دہرایا جاتا ہے کہ تمام دین کے فرائض اپنی جگہ مگر دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ آج آپ دیکھ لیجئے کہ کوئی کسی کا احساس تک نہیں کرتا۔ نبی پاکؐ کی تعلیم بھی اپنی ہی مرضی کے مطابق اپنائی جاتی ہے، سختی سے کاربند نہیں رہا جاتا۔
تازہ ترین