• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جو اِس دنیا میں زندہ لوگ ہیں اور گزشتہ تیس، چالیس، پچاس سال سے جدید عالمی سیاست کے بدلتے رنگ ڈھنگ کے زمانے پر نظر رکھے، اس کے جملہ پہلوئوں کا شعور رکھتے ہیں، دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی جدوجہد و تحاریک اور حکومتی پالیسیوں و اقدامات کے منطقی انجام و نتائج کو اُن کے قریب آنے یا ابتدا پر کیسے روکا جا سکتا ہے، اور انہیں انہونی مزاحمت سے کس بُری طرح ڈسٹرب کیا جا سکتا ہے، اتنا کہ سب کچھ ہوا ریورس ہو جاتا ہے۔

26جنوری 1991جب آنجہانی سوویت یونین کی روسی کشور کشائی کھلی مالا کے دانوں کی طرح بکھر گئی تو فتح سے ہمکنار ہوتے امریکن اینگلو بلاک(سینٹو) کے سوا کوئی بھی تو نہ تھا جو 45سالہ سرد جنگ کے منطقی انجام، خاتمہ سوویت یونین کا خاتمہ، وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کی آزادی اور دیوارِ برلن کے انہدام سے مشرقی یورپ کی جکڑ بندی جیسے نکلے عظیم نتائج کے ساتھ ساتھ، عظیم تر اور مطلوب نتیجے، عالمی امن، اور اقوامِ متحدہ کی تشکیل کے بعد بھی باقی رہ جانے والے اور سرد جنگ میں پیدا ہونے والے دو طرفہ اور علاقائی تنازعات کو بھی حاصل کر سکتا۔ اقوامِ متحدہ مغلوب کی مغلوب رہی، سینٹو گھڑے دھڑکوں کے ساتھ قائم دائم رہا۔ محروم اقوام کے تسلیم شدہ حقِ خود ارادیت کے حصول کی جیتی جاگتی امید دم توڑ گئی، دو طرفہ تنازعات پیدا بھی ہوئے اور ان میں شدت بھی آئی۔ کتنی ہی دو طرفہ جنگوں نے علاقائی امن و استحکام کو ناممکن سا بنا دیا اور کوئی اور ہی عالمی خطرہ تراشنے کی کاوشیں شروع ہو گئیں، اس کے لئے اب کوئی صورتحال تو ایسی نہ تھی کہ یہ وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے ذخائر کا جواز بنتا نہ ہی اسلحے کی دوڑ کی منطق بن پا رہی تھی، فاتح اتنے طاقتور اور بلامقابلہ ہو گئے تھے کہ دنیا میں تنازعات کو اقوامِ متحدہ کے عالمی ایجنڈے کی روشنی میں ختم کرنا مسئلہ رہ ہی نہیں گیا تھا فقط مرضی، ارادے اور نیت کا معاملہ رہ گیا تھا۔ گلیاں اگر سنجی نہ بھی ہوئی تھیں اتنا ضرور تھا کہ ’’عالمی مرزا یار‘‘ مثالی علاقائی و عالمی امن کو بغیر کسی رکاوٹ کے سینٹو ساتھیوں کی مدد سے حاصل کر لیتا لیکن خاتمہ جنگ کے بعد حاصل ہوتے اگر سارے ہی مثبت نتائج جیسے کمیونزم کا خاتمہ اور سینٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کی آزادی کی طرح باقی ماندہ جنگوں کو جنم دینے والے تنازعات بھی کم تر یا ختم ہو جاتے تو بھاری بھر سرمایہ کی کمائی والی اسلحہ فیکٹریاں اور منڈیاں ٹھپ ہو جاتیں۔

قیامِ عالمی امن کی متذکرہ آئیڈیل صورتحال میں دنیا کو پھر سے پُر خطر بنانا محدود تر طاقتوروں کی ضرورت بن گئی، اس کا جواز تراشنا بھی بذات خود ایک چیلنج تھی ایسا جواز جسے دنیا مانے اور نیا خطرہ بھی محسوس کرے۔ تبھی تو اسلحے کی تجارت اور امن کی بجا ئے منچلےکی سیاست رہتی۔

بالاخر بدقسمتی سے عروجِ علم نے اسے آسان تر بنا دیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی علم و تحقیق کا عالمی مرکز و محور مانا جاتا ہے۔ ہارورڈ سینٹر فار انٹرنیشنل افیئرز، عالمی و علاقائی سوویت کے مطالعے و تحقیق اور اس کی روشنی میں مسائل کے حل اور مطلوب ضروریات پوری ہونے کے علم کا مرکز رہنمائی ہے لیکن عجب ہوا اس کے عشروں رہنے والے ڈائریکٹر پروفیسر سیموئل فلپس ہین ٹنگٹن، جو دنیا کے مانے ہوئے ماہرِ سیاسیات تھے اور اپنی اس حیثیت میں انہوں نے امریکہ کی تو بےپناہ خدمت کی لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے فقط اڑھائی سال بعد ’’کلیش آف سولائزیشن‘‘ کا ایسا نظریہ لائے کہ عالمی امن کے آئیڈیل حالات پیدا ہونے پر سردجنگ کے خاتمے کا سب سے بڑا منطقی نتیجہ ’’عالمی امن‘‘ ڈسٹرب ہوتا ہوتا پٹری سے ہی اتر گیا۔پروفیسر صاحب نے دنیا کو پانچ بڑی تہذیبوں عیسائیت (مغربیت)، اسلام، یہودیت، چینی اور ہندی میں بانٹ کر اپنی تھیوری پیش کی کہ دنیا میں مذہب اور کلچر کی تفریق ہی تنازعات اور جنگوں کا باعث بنی اور دوسری جنگ عظیم بھی اس کا شاخسانہ تھی، اس تلخ حقیقت کے قائم دائم رہنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی انتہا پسندی کو آئندہ کے عالمی امن کے لئے بڑا خطرہ بتایا۔

اس وقت تک قیامِ عالمی امن میں بحیثیت مجموعی دنیائے اسلام امریکی اینگلو بلاک کے ساتھ ساتھ چلی، سرد جنگ کے آخری معرکے ’’جہادِ افغانستان‘‘ میں جنرل اسمبلی کے گیارہ برسوں کا ریکارڈ واضح طور پر یہ بھی ثابت کرتا ہے، باوجود اس کے کہ ابھی مسئلہ فلسطین و کشمیر جیسے مسائل صرف حل طلب ہی نہیں ان میں غیرجانبدارانہ کردار اختیار کر کے حل میں طوالت اور پھر اُن کے گمبھیر ہونے کے ذمہ دار بھی رہے اور ہیں۔ سو، سرد جنگ کے خاتمے کے تین بڑے متذکرہ مثبت نتائج کے ’’عالمی امن کے قیام‘‘ کے عظیم تر مقصد کو دانستہ حاصل ہی نہیں کیا گیا بلکہ کھلم کھلا جانبداری سے اقوامِ متحدہ کے مقاصد کو بھی زک پہنچائی گئی۔ پروفیسر ہین ٹنگٹن کی تھیوری آف ’’کلیش آف سولائزیشن‘‘ تو دی فارن افیئرز کے سمر 1993میں شائع ہو کر عام ہوئی، اس وقت یہ پبلیکیشنز خالصتاً ایک ریسرچ جرنل تھی، جس کے آرٹیکلز تحقیقی کام کے لئے تو بہت ویلیو ایبل مانے جاتے لیکن یہ پاپولر فورم میں نہ آتے اور کبھی آتے بھی اس انداز میں اور اتنی جلدی نہیں جس طرح پروفیسر صاحب کی تھیوری، ’’کلیش آف سولائزیشن‘‘ ہوئی۔ اس سے قبل مختلف علمی و سیاسی ذرائع اور متعلقہ تھنک ٹینکس سے محدود ترین عسکری صلاحیت کے حامل چند زیر زمین انتہا پسندانہ سیاسی راہ لئے معدودے چند پریشر گروپس کو میڈیا اور سیاسی و حکومتی ابلاغ کے ایجنڈے میں لاکر دنیا بھر میں اسلامک فنڈامینٹلزم کا پروپیگنڈہ کیا گیا، میں ترقی پذیر دنیا کے تواتر سے سماجی، سیاسی اقتصادی بحرانوں کے حامل ملک تادم ناکام اسلامی جمہوریہ کا عالمی سیاست کا طالب علم یہ اعتراض اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہوں کہ پروفیسر ہین ٹنگٹن نے کلیش آف سولائزیشن کی تھیوری پیش کرتے، انسانی تہذیب کے ارتقاء اور کامیابیوں کو یکسر نظرانداز کیا، جن کا مبنی بر عقل جواز کتنے ہی مغربی سکالرز نے اپنی تحقیق اور تجزیوں میں پیش کیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین