• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگوسٹااسکینڈل، فرانس میں کارروائی شروع، پاکستان کی لاتعلقی

اسلام آباد (انصار عباسی) 1990ء کے دہائی کے وسط میں پاکستان اور فرانس کے درمیان ہونے والے آبدوز معاہدے میں مبینہ طور پر خفیہ کمیشن لیے جانے کے معاملے پر فرانس میں حکام نے اپنے سابق وزیراعظم اور سابق وزیر دفاع کیخلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ 

تاہم، پاکستان کا اس معاملے میں اعلیٰ سطح کی انکوائری کرنا باقی ہے کیونکہ اس معاملے کو ملک کے دفاعی معاہدوں میں سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل سمجھا جا رہا ہے۔ 

حال ہی میں بی بی سی نے خبر دی تھی کہ سابق فرانسیسی وزیراعظم ایدواغ بالادغ (Edouard Balladur) اور سابق وزیر دفاع کیخلاف ’’کراچی افیئر‘‘ (سب میرین معاہدے) کے حوالے سے ٹرائل کا آغاز کیا جائے گا، یہ کیس پاکستان کے ساتھ 1990ء کی دہائی میں ہونے والے آبدوز معاہدے کے متعلق ہے جس میں مبینہ طور پر خفیہ انداز سے کمیشن لی گئی تھی۔ 

خبر میں بتایا گیا تھا کہ بالادغ، جن کی عمر اب 90؍ برس ہے، کو مبینہ طور پر 1995ء میں صدارتی الیکشن کیلئے فنڈنگ دی گئی تھی۔ اس الیکشن میں وہ ناکام ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے وزیر دفاع فرانسوا لیوتاغد (Francois Leotard) کو بھی اس معاملے پر ٹرائل کا سامنا ہے۔ 

بی بی سی کا کہنا تھا کہ دونوں افراد نے دوٹوک الفاظ میں کوئی بھی غلط کام کرنے کی تردید کی ہے۔ دی نیوز نے جمعرات کو پاکستان میں بحریہ کے سابق سربراہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگرچہ معمولی انکوائریاں کرائی گئی تھیں اور کچھ وسط درجے کے حکام اور سویلین حکام کو بھی قصور وار قرار دیا گیا تھا لیکن اس معاہدے کے حوالے سے ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کیلئے اعلیٰ سطح کی تحقیقات نہیں کرائی گئیں۔ 

2010ء میں دی نیوز سے بات چیت کے دوران پاک بحریہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل نیول انٹیلی جنس (ڈی جی این آئی) نے خود کو فرانسیسی اور پاکستانی حکام کے سامنے پیش کرنے کی پیشکش کی تھی تاکہ اس معاملے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے اور لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لائی جاسکے۔ 

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کموڈور نے بتایا تھا کہ وہ پاکستانی اور فرانسیسی حکام کے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیں۔ کمیشن مافیا کیخلاف بہت کچھ جاننے کی وجہ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہراساں کیا گیا اور غیر قانونی حراست میں رکھ کر انہیں ملازمت سے قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی اور فرانسیسی حکام کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگوسٹا سب میرین معاہدے میں کمیشن لیے جانے کے حوالے سے میرے پاس فراہم کرنے کے لیے بہت معلومات ہیں۔ 

سابق ڈی جی این آئی نے اگوسٹا ڈیل کے حوالے سے کچھ معلومات افشا کی تھیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ جس وقت اس ڈیل کی وجہ سے اُس وقت کے چیف آف نیول اسٹاف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور سابق وزیراعظم، اور ان کے انتہائی قریبی رشتہ دار پر کرپشن کے ریفرنس دائر کیے گئے تھے، لیکن اس ڈیل سے لاکھوں کروڑوں کمانے والے بحریہ کے طاقتور اور با اثر افراد کو کبھی بھی کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔ 

سابق ڈی جی این آئی کے مطابق سب میرین ڈیل میں کی جانے والی اس لیپا پوتی کا مقصد پاک بحریہ میں کئی لوگوں کو بچانا تھا۔ سابق ڈی جی این آئی کا منہ بند کرنے کے لیے ان پر ایک نیوی افسر سے 15؍ لاکھ روپے لینے کا الزام عائد کیا گیا، اس افسر پر الزام تھا کہ اس نے بحری کشتیوں کے غیر ملکی سپلائرز سے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھایا اور کمیشن وصول کی تھی۔ 

اس کے برعکس، کمیشن لینے والے بحریہ کے افسران کی فہرست کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا حتیٰ کہ انہیں ریئر ایڈمرل کے عہدوں پر ترقیاں بھی دی گئیں۔ 

سابق ڈی جی این آئی نے انکشاف کیا تھا کہ اگوسٹا کے معاہدے میں شامل فرانسیسی کمپنی SOFMA نے 17؍ فروری 1995ء کو خط لکھا تھا جس میں نیوی کے چار افسران کو 40؍ ہزار ڈالرز کی ادائیگی کیے جانے کی بات لکھی تھی۔ خط میں ان چاروں کے نام بھی لکھے تھے۔ 

چاروں افسران کیخلاف تحقیقات کرنے کی بجائے ہر ایک کو ریئر ایڈمرل بنایا گیا جبکہ ڈی جی این آئی کو 15؍ لاکھ روپے کی مبینہ کرپشن میں پھنسا دیا گیا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق ڈی جی این آئی پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک نیوی افسر سے یہ رقم لی ہے جو دفاعی معاہدوں میں غیر ملکی سپلائرز سے پیسے لے رہا تھا۔ 

ڈی جی این آئی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے حکام بالا سے اجازت طلب کی کہ وہ اُس ایجنٹ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں جو نیوی افسران کو رشوت دے رہا ہے۔ لیکن انہیں اجازت نہیں ملی۔ اُس وقت کے ڈی جی این کے علاوہ، بحریہ کے سابق سربراہ نے دی نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں فرانسیسی تفتیش کاروں کی رپورٹ کی توثیق کی، اس رپورٹ میں اگوسٹا سب میرین معاہدے میں 49؍ ملین ڈالرز کی کک بیکس مبینہ طور پر ایک اہم سیاست دان اور نیول افسران کو دی گئی تھیں۔ 

انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کی حکومت نے پاکستان نیوی سے کہا تھا کہ فرانسیسی آبدوزیں حاصل کی جائیں۔ انہوں نے اس وقت کے نیول چیف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کی حکومت کے وزیر دفاع نے واضح طور پر پاک بحریہ کی ہائی کمان کو اشارہ دیا تھا کہ حکومت بحری بیڑے میں شمولیت کے لیے فرانسیسی سب میرینز کو ترجیح دیتی ہے۔ 

سابق نیول چیف کے بقول، وزیر دفاع کی واضح زبانی ہدایات کے باوجود بحریہ کی اعلیٰ کمان نے ملاقات کی اور اس موضوع پر مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ حکومت کو دو آپشنز دیے جائیں جن میں برطانیہ کی ’’اپ ہولڈر‘‘ آبدوز اور فرانس کی ’’اگوسٹا‘‘ آبدوز شامل تھے۔ بعد میں حکومت نے اگوسٹا کی شمولیت کیلئے منظوری دی۔ یہ سابق نیول چیف اکتوبر 1999ء سے اکتوبر 2002ء تک پاک بحریہ کے سربراہ تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ نیوی کو پہلے 1998ء میں اگوسٹا ڈیل میں کک بیکس لیے جانے کا علم ہوا جس کے بعد ادارے نے کیپٹن اور کموڈر عہدے کے تین افسران کیخلاف رشوت لینے کے الزام کے تحت کارروائی کی اور بعد ازاں انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرا اندازہ یہ ہے کہ نیوی کے کچھ اعلیٰ سطح کے عہدیدار، جن میں کموڈور رینک سے بڑے عہدیدار بھی شامل ہیں، نے کک بیکس لی ہیں جس کی نشاندہی فرانسیس میڈیا کی رپورٹس میں بھی کی گئی ہے، نیوی کے ان اعلیٰ عہدیداروں کیخلاف اس لئے کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ ثبوت یا گواہ نہیں تھے۔ 

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق نیول چیف پر بھی اگوسٹا کیس میں کک بیکس لینے کا الزام ثابت نہیں ہو سکا تھا، انہیں دیگر دفاعی معاہدوں میں رشوتیں لینے کا مرتکب پایا گیا تھا۔

تازہ ترین