عصرِ حاضر کے بعض محترم محققین نے اقبال کے قیام ِ پاکستان میں کردار کو یا تو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا یا اس کی اہمیت کی درست قدر پیمائی نہ کرسکے۔ ایک نوجوان’’ محقق ‘‘نے تو یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ علامہ اقبال ’’ایک ناکام سیاست داں ‘‘ تھے۔ کاش کوئی ان سے پوچھتا کہ جس شخص کے سیاسی افکار کے نتیجے میں بر ِعظیم پاک وہند میں ایک نیا ملک وجود میں آیا،دنیا کی تاریخ اور نقشہ دونوں تبدیل ہوگئے اور کروڑوں لوگوں کی قسمت بدل گئی، کیا اس کی سیاست ناکام کہلائی جاسکتی ہے؟اگر ہاں تو پھر ’’سیاسی کام یابی ‘‘ کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا پیمانہ بھی بتادیجیے۔کاش ہم یہ سمجھ سکیں کہ عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا سیاست اور مدنیت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور یہی سیاسی کام یابی کا پیمانہ بھی ہے۔
قیام ِ پاکستان میں علامہ محمد اقبال کا کردارجب بھی زیرِ بحث آئے گا اس کے دو پہلوئوں کا ذکر ضرور ہوگا: اولاً ، ان کی سیاسی فکراور نظریہ ،ثانیاًان کا پیغام جو دراصل ان کی سیاسی فکرا ور نظریات ہی کا پر تو ہے اورجو انھوںنے اپنی فسوں خیز اورحیات آفریں شاعری کے ذریعے قوم تک پہنچایا۔ اقبال کے اسی شاعرانہ پیغام نے قیام ِ پاکستان میں اہم کردارادا کیا لیکن چونکہ یہ غیر محسوس طریقے پر تھا اور اس میں بظاہر کوئی سیاسی ’’مار دھاڑ ‘‘بھی نہیں تھی لہٰذا آج کل کے بچے اقبال کی سیاست کو ’’ناکام ‘‘ سمجھتے ہیں۔ دراصل انھوں نے وہ ماحول تو دیکھا ہی نہیں ہے جو قیام پاکستان سے قبل تھا ،شاید اس کے بارے میں کچھ پڑھا بھی نہیں ہے۔
لیکن اقبال کے سیاسی نظریات اور پیغام کو نہ سمجھ سکنے کا گلہ ہم آج نئی نسل سے کیا کریں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب اقبال نے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں اپنا شہر ٔ ہ آفاق خطبہ پیش کیا ، جس میں ہندستان میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے واضح خد وخال فلسفیانہ اور نظری سطح پر پیش کیے تھے ، تو اس وقت بھی اسے کچھ زیادہ پذیرائی نہ ملی کیونکہ اس کے اثرات اور مضمرات قوم پرکچھ عرصے بعد منکشف ہوئے۔
الہ آباد کے اجلاس میں پیش کیے گئے اقبال کے صدارتی خطبے پر حاضرین کے رد عمل کے بارے میں تحریکِ پاکستان کے رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اپنی کتاب ’’شاہراہِ پاکستان ‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ایسے کھلے ہوئے اشارے اور واضح تشریح کے بعد بھی مسلم لیگ کے اس اجلاس میں موجود کسی ایک فرد نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہ لیا اور نہ کسی نے اپنی تقریر میں اس کی تائید میں کوئی تجویز پیش کی‘‘۔
اس وقتی کم فہمی اور اس خطبے کی اہمیت اور دور رس اثرات کو عارضی طور پر نہ سمجھ سکنے کے باوجود اسی مسلم لیگ نے اقبال کے خطبہ ٔ الہٰ آباد میں واضح کیے گئے خدو خال کی روشنی میں دس سال کے بعد لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش کی اور اس کے صرف سات سال بعد اقبال کی فکر اور نظریہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک سیاسی اور تاریخی حقیقت بن کر سامنے آیا۔ یہ ہے اقبال کی بطور سیاست داں کام یابی ۔
قائد اعظم محمد علی جناح سے اقبال کی ذہنی ہم آہنگی اور اقبال کے عملی و نظری سیاسی کردار کے ساتھ قیام ِ پاکستان میں یقینا ایک اہم کرداراقبال کی شاعری کا بھی ہے۔اس میں کوئی مبالغہ اس لیے نہیں ہے کہ اس دور میں اقبال کی شاعری اور ان کے پیغام کی مقبولیت کا کیا عالم تھا اس کا اندازہ کرنا آج آسان نہیں ہے اور مختصراً یہ کہ ان کی شاعری ہندستان کے کونے کونے میں پہنچ چکی تھی اور مدرسوں کے علاوہ سڑکوں پر بھی باقاعدہ گائی جاتی تھی۔ اس کی تفصیل دینا یہاں ممکن نہیں ،صرف ایک جھلک ہی یہاں پیش کی جاسکتی ہے، جو حاضر ہے ۔
اقبال کے پہلے اردو مجموعۂ کلام ’’بانگِ درا‘‘ کی اولین اشاعت (۱۹۲۴ء ) سے قبل ہی اہل علم اور شائقین ِ ادب اقبال کا کلام اپنے طور پر جمع کررہے تھے اور کئیوں کی خواہش تھی کہ اقبال کا اردو کلام جلد سے جلد شائع ہوجائے۔ علامہ اس ضمن میں خود بھی اپنا اردو کلام مرتب اور منتخب کررہے تھے لیکن ان سے پہلے ہی ۱۹۲۳ء میں احمد دین صاحب نے، جو کلام ِاقبال کے بڑے عاشق تھے، لاہور سے ’’اقبال‘‘ کے عنوان سے کتاب چھپوادی جس میں اقبال کے اردو کلام کا معتد بہ حصہ شامل تھا۔
اقبال نے اسے پسند نہیں کیا۔ چنانچہ اس کے سارے نسخے حضرت علامہ کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے نذر آتش کردیے گئے ۔اس کتاب کے چند نسخے آتش زدگی سے محفوظ رہ گئے تھے جن کی مدد سے مشفق خواجہ صاحب نے اس کتاب کو مرتب کردیا اور یہ کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان سے ’’اقبال از احمد دین ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی۔
اقبال کے ایک اور عاشق مولوی محمد عبدالرزاق تھے جن کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔وہ راشد تخلص کرتے تھے۔ انھوں نے بھی اپنے طور پر اقبال کا اردو کلام مرتب کرکے ۱۹۲۴ء میں دکن سے ’’کلیات اقبال ‘‘ کے نام سے بلا اجازت شائع کردیا تھا۔رفیع الدین ہاشمی صاحب نے لکھا ہے کہ اس کی فروخت دکن تک محدود کردی گئی تھی ۔
محمد عبدالرزاق کی مرتبہ یہ’’ کلیات ِاقبال‘‘ فرمان فتح پوری صاحب کے مقدمے کے ساتھ ملتان سے بیکن بکس نے ۲۰۰۷ء میں شائع کی ۔ محمد عبدالرزاق کی مرتبہ اس ’’کلیات ِاقبال ‘‘ (۹۲۴اء) کے دیباچے میں بعض ایسے واقعات درج ہیں جو بر عظیم پاک و ہند کے طول و عرض میں کلام ِ اقبال کی مقبولیت کے شاہد ہیں، مثلاً ،بقول ان کے، ایک اہل قلم نے اضلاعِ کانگڑہ و شمال کے دشوار گزار پہاڑوں میں ان پڑھ دیہاتی لڑکیوں کو اقبال کے شعر پڑھتے سنا۔
خود انھیں بھی کلام ِ اقبال کی مقبولیت کے ضمن میں ایک عجیب تجربہ ہوا ۔ وہ مدراس کے قریب ایک چھوٹے سے شہر میں تھے جہاں بقول ان کے مسلمان بہت ہی کم آباد تھے اور ان کی حالت نا گفتہ بہ تھی ۔ یہاں اردو بولی جانا تو درکنار اچھی طرح سمجھی تک نہیں جاتی تھی ۔لکھتے ہیں کہ وہاں عید الفطرکی نماز سے فارغ ہوکر واپس آتے ہوئے’’ میرے تحیر کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے نٹ قوم کے ایک فرد کو دیکھا کہ اس کے گلے میں ایک چھوٹا سا ہارمونیم آویزاں ہے اور وہ نہایت دلربایانہ انداز اور جوش و مستی کے عالم میں اقبال کے یہ اشعار گارہا ہے:
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تُو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
لوگ اس کے سامنے جھوم رہے ہیں اور بڑھ بڑھ کر اس کی جھولی میں پیسے ڈالتے جاتے ہیں ۔۔۔کبھی نہ بھولے جانے والے منظر نے میرے دل میں دردو اثر کا ہجوم اور یہ تیقن پیدا کیا کہ اقبال کی آواز صرف اپنی قوم کے لیے صدا بصحرا نہیں بلکہ اقوام ِ عالم کی فلاح و بہبود کے واسطے تیر بہدف ہوگی ‘‘۔اسی طرح کے چند دیگر واقعات بھی مولوی محمد عبدالرزاق نے اپنے اس دیباچے میں رقم کیے ہیں جن کا یہاں نقل کرناباعث ِ طوالت ہوگا۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دور دراز اور اردو سے نابلد خطے میں جب یہ حال تھا تو برعظیم پاک و ہند کے دیگر علاقوں بالخصوص یوپی اور پنجاب میں کیا عالم رہا ہوگا۔
محمد حمزہ فاروقی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’حیات ِ اقبال کے چند مخفی گوشے ‘‘ میں اس دور کے معروف اخبار ’’انقلاب ‘‘کی خبروں کا اصل متن پیش کیا ہے ۔ ان میں سے بعض خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبا ل کی کتابوں اور شاعری کی مقبولیت کا اس زمانے میں کیا عالم تھا۔ حضرت علامہ کی زندگی ہی میں ’’یوم ِ اقبال ‘‘بہت جوش و خروش سے منایا جانے لگا تھا اورنومبر ۱۹۳۷ء میں جب لاہور میں اقبال کمیٹی نے یوم ِ اقبال کا انعقاد کیا تو قائد ِ اعظم محمدعلی جناح نے اس موقعے پر ایک خصوصی پیغام ارسال کیا اور کمیٹی کو بھرپور مبارک باد دی۔
کلام ِ اقبال اور پیغام ِ اقبال کی مقبولیت اور محبوبیت کی ساری تفصیل کو یہاں پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ مختصراً یہ کہ بے شک اس دور میں بھی اقبال کا پیغام ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچ چکا تھا اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس نے قوم کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔قیام ِ پاکستان میں اقبال کے۱۹۳۰ء کے خطبۂ الہٰ آباد کے علاوہ ان کی اثر انگیز شاعری کا بھی بڑا حصہ تھا۔
گویا ۱۹۴۷ء میں ایک نئے ملک کے دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے عوامل میں اقبال کے سیاسی اور ادبی افکار بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ’’محققین ‘‘ قیام ِ پاکستان کے عوامل اور اقبال کے پیغام کی تاثیر کو پڑھے اور سمجھے بغیر ہی اقبال کو ناکام سیاست داں قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔اگر وہ اپنے مطالعے میں ذراوسعت لائیں تو انھیں احساس ہوگا کہ ایک مخصوص مکتب ِ فکر کے تحت محدود نقطۂ نظر کے حامل بعض نام نہاد دانش وروں کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کسی فکری یا تحقیقی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس ِپشت مخصوص مفادات کام کررہے ہیں ۔ ذرا تاریخ تو کھنگالیے، بقول ِ اقبال:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں