• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں اور جو وقت کی سختیاں‘ محنت‘ لگن‘ جستجو سے جھیل جاتے ہیں وہ باکمال ہوجاتے ہیں۔ پیدائشی ٹیلنٹ یا صلاحیت کسی کی میراث نہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شخص پیدائشی طور پر صلاحیتیں رکھتا ہو اسے اپنی خداداد صلاحتیں دکھانے کے لئے کچھ زیادہ پریکٹس کی ضرورت نہیں پڑتی بس موقع ملنے پر وہ ایسے ایسے جوہر دکھاتا ہے کہ دنیا دنگ رہ جائے۔ 

آپ روزانہ اپنے اردگرد ہزاروں نوجوانوں کو گلی محلوں‘ فٹ پاتھوں‘ اجڑے میدانوں کی اڑتی دھول میں کرکٹ کھیلتے دیکھتے ہیں لیکن ہر کوئی عمران خان‘ وسیم اکرم‘ جاوید میانداد‘ عبدالقادر‘ ظہیر عباس‘ انضمام الحق یا مصباح الحق نہیں بن پاتا۔ اسی طرح کچھ موٹر مکینک ایسے بھی ہیں جو کسی انجینئرنگ یونیورسٹی سے آٹو موبائل ڈگری یافتہ نہیں ہوتے مگر گاڑی کا انجن اسٹارٹ ہوتے ہی خرابی کو بھانپ جاتے ہیں اور ایسی جوگاٹھ لگاتے ہیں کہ انسان حیران و پریشان ہو جائے۔ 

ہر سال میڈیکل کالجوں سے ہزاروں ڈاکٹرز ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں مگر نبض شناس خال خال ہی ملتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ لے لیں بہترین قلم کار‘ افسانہ نگار‘ ادیب‘ شاعر‘ تجزیہ کار اور خطیب ہر کوئی نہیں بن پاتا یہ خداداد صلاحیتوں کا ہی ثمر کہلاتا ہے۔ 

یہی حال سائنسدانوں کا ہے مگر پاکستان میں سیاستدان کوئی بھی بن سکتا ہے کیونکہ یہ خلائی مخلوق کسی بھی وقت‘ کسی بھی مقام پر‘ کسی بھی حال میں، کہیں بھی نازل ہو سکتی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو جو قدرتی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ان میں کچھ لوگ انتظامی امور کے ماہر کہلائے جاتے ہیں تو کسی میں رابطہ کاری یا جوڑ توڑ کا فن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ پیدائشی باصلاحیت افراد میں عام افراد سے زیادہ فیصلہ سازی‘ تنقید یا سوال کرنے کی قوت پائی جاتی ہے۔ 

ان صلاحیتوں کی قدر کرنا انہیں اعلیٰ تربیت‘ سخت محنت سے نکھار کر قومی و بین الاقوامی دھارے میں لانا اور ان کے جذبے کو ابھارنا آگے بڑھنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔ ورنہ آپ ان افراد کی انمول صلاحیتوں کو کھو بھی سکتے ہیں۔ دنیا کے کامیاب ترین افراد کی زندگی کا پسِ منظر دیکھیں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکثریت منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئی۔ 

بس انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو ایک جذبے کے تحت آگے بڑھایا اور منزل پانے کی خاطر آگے بڑھتے رہے۔ صلاحیتیں رکھنے کے باوجود ناکام لوگوں کی زندگی کا تجزیہ کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ لوگ صلاحیتوں سے مالا مال تھے مگر اپنی صلاحیتوں کو منظرِعام پر لانے میں ناکام رہے۔ 

یا تو وہ ان صلاحیتوں کا ٹھیک سے اظہار نہ کر پائے یا انہیں اظہار کا موقع ہی نہ دیا گیا اور وہ تاریخ میں کند ذہن‘ ناکام اور گم نام قرار پائے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کی کوشش نہیں کر پائے اور ماضی کی ناکامیوں‘ احساسِ محرومیوں کا رونا روتے روتے گزر گئے۔ صلاحیت کو باصلاحیت ثابت کرنے کے سفر میں یہ بات لازم ہے کہ آپ میں ہنر بھی ہو اور آگے بڑھنے کا جذبہ بھی۔ 

جذبہ ایک ایسا پُل ہے جو بہتر کو بہترین بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی شعبے میں صلاحیتیں تو رکھتے ہوں مگر اپنی صلاحیتوں کا جذبے کے ساتھ اظہار نہیں کر پاتے اور جذبے سے آگے بڑھنے کی جستجو نہیں کرتے تو کبھی بھی آپ کی صلاحیتیں دنیا کے سامنے نہیں آ پائیں گی۔ بڑے مولانا صاحب نے آج اپنی سیاسی صلاحیتوں کو باصلاحیت ثابت کر دکھایا۔ 

مولانا کے اس دھرنے سے عمران سرکار کا کیا سیاسی نقصان ہوگا اور ملک کس امتحان سے گزرے گا‘ مذاکرات کے نتائج کیا نکلیں گے‘ کون سیاسی طور پر مرتا اور جیتتا ہے‘ ن لیگ‘ پیپلزپارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا‘ مولانا اسلام آباد سے کیا حاصل کرکے اٹھیں گے‘ دنیا کو اس دھرنے سے کیا پیغام ملے گا‘ دھرنے سے کشمیر کا مسئلہ دفن ہو گیا یا اجاگر۔ 

قومی سلامتی کے ادارے کیا سوچ رہے ہیں اور کس حد تک فکرمند ہیں‘ فریقین کے درمیان کون کیا پیغام رسانی کررہا ہے‘ اس دھرنے سے حکمرانوں کی صفوں میں کتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں‘ کون ملک سے بھاگنے والا ہے‘ کون کون وفاداریاں تبدیل کرنے کا سوچ رہا ہے‘ پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی آئے گی یا عمرانی سرکار ہی پانچ سال چلتی جائے گی۔ 

ملتان کے شاہ‘ پنڈی بوائے اور بہت سارے خاموش کیوں ہیں‘ بڑے خان کو اچانک چپ کیوں لگ گئی۔ پرویز الٰہی مولانا یا وہ مولانا کے ہاتھ پر بیعت ہوتے ہیں، کیا حکومتی مذاکراتی ٹیم میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ اپوزیشن کی گھاگ رہبر کمیٹی کا مقابلہ کر سکے‘ یہ دھرنا اتنا منظم کیوں اور اس کے پیچھے کون ہے‘ عمرانی سرکار ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی میں دھوکہ کیوں کھا گئی‘ کس نے دھرنے پر ڈنڈا چلانے کی تجویز دی اور بڑے خان کو حیرت کیوں ہوئی اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بیرون ملک کالیں کیوں کرتے ہیں۔ 

کیا دھرنے کے دوران 9نومبر کو اقبال کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا یا ہماری درخشندہ تاریخ مسخ کی گئی۔ دشمن نے ہمارے قومی تہواروں کو خون آلود کیا‘ آخر آج ہم سب یہ کیوں بھول گئے۔ مولانا کو منانے کی آخری کوششیں بھی حد سے گزر گئیں‘ کیا دھرنا ناکام لوگوں کا میلہ چراغاں ہے یا باصلاحیت لوگوں کی صلاحیتوں کو نکھار کر سامنے لانے کا بہترین موقع۔ 

آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ مجھے تو اس دھرنے میں پاکستان کا روشن مستقبل دِکھ رہا ہے کہ مولانا صاحب نے پورے پاکستان سے ایسے ایسے باصلاحیت لوگوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا جنہیں آج سے پہلے دنیا نئے نئے لیبل لگا کر زمانے بھر میں رسوا کر رہی تھی۔ 

ان باصلاحیت لوگوں کی اکثریت نے پاکستان کا دارالحکومت بھی شاید پہلی بار ہی دیکھا ہوگا۔ پسماندہ علاقوں کے رہنے والے یہ لوگ بڑی بڑی کشادہ سڑکیں‘ خوبصورت جھولوں سے مزین پارک‘ عالی شان سرکاری محلات‘ دیو قامت عمارتیں دیکھ کر حیران تو ضرور ہوئے ہوں گے اور ان کا احساسِ محرومی بھی ضرور بڑھا ہوگا مگر دھرنے کا سیاست سے ہٹ کر ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے شرکاء بڑے قیمتی، باصلاحیت، جفاکش، فولادی جسم ہیں۔ 

ان کا مذاق اڑانے کے بجائے ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیجئے، انہیں حوصلہ دیجئے، انہیں باصلاحیت بنانے کے لئے روٹی کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں کوچنگ کیجئے پھر دیکھئے یہ دنیا کے کونے کونے سے کون کون سے گولڈ میڈل جیت کر لاتے ہیں، یہ عام لوگ نہیں، فخر پاکستان ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ 

رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین